زید نے اپنا گھر کرایہ پر دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رقم خرچ کردیتا ہے، جمع نہیں کر تا،تو کیا اس پر زکات واجب ہوگی؟
زید نے اگر مکان کرایہ پر دیا ہوا ہے، تو مکان کی قیمت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کرایہ سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو، استعمال میں آجاتا ہو تو اس صورت میں استعمال شدہ کرایہ کی رقم پر بھی زکات لازم نہیں ہوگی۔ البتہ اگر زید پہلے سے صاحبِ نصاب ہو اور ہر سال زکات ادا کرتا ہو تو اس صورت میں جس دن اس کی زکات کا سال مکمل ہورہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ اس کے پاس موجود ہو، استعمال میں نہ آیا ہو، اسے کل مال کے ساتھ شامل کرکے کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر کرایہ کی رقم جمع کرکے وہ صاحبِ نصاب ہوجائے تو آئندہ سالانہ زکات ادا کرنی ہوگی۔
الفتاوى الهندية - (5 / 69):
"ولو اشترى قدورًا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة".
الفقه الإسلامي وأدلته - (3 / 292):
"المطلب الأول ـ زكاة العمارات والمصانع ونحوها :
اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202877
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن