بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ داری کی مختلف صورتوں کے احکام


سوال

کسی علاقہ میں مکان کا ایک معروف کرایہ مثلاً بیس ہزار ہو،جس میں معمولی کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے،اسی طرح مالک مکان کرایہ دار سے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کرتا ہے،تاکہ یوٹیلٹی بلز یا کسی قسم کے نقصان کی تلافی جمع شدہ ایڈوانس رقم سے کی جا سکے،یہ بھی تقریباً ہر علاقے کی نوعیت کے اعتبار سے کرایہ کی طرح معروف ہوتا ہے،معمولی کمی بیشی اس میں بھی پائی جاتی ہے۔

کرایہ کی مد میں ہو یا ایڈوانس کی مد میں دونوں صورتوں میں معمولی کمی بیشی عاقدین کی رضامندی سے طے ہو جاتی ہے، جس سے نزاع واختلاف کا خدشہ بھی عموماً باقی نہیں رہتا،اس صورتِ حال کے کو مدِ نظر رکھ کر چند سوالات کے جوبات مطلوب ہیں۔

1۔مالک مکان کرایہ دار سے یہ کہے کہ:  اگر تم ایڈوانس کرایہ ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ دیتے ہو، تو معروف کرایہ سے کم کرایہ آپ سے طے کر وں گا،مثلاً معروف کرایہ دس ہزار ہے ، زیادہ ایڈوانس  کی وجہ سے پانچ یا سات ہزار  کرایہ پر مکان دے دوں گا،تو کیا ایسا کرنا شبہ ربا کے زمرے میں    آئے گا، اور ناجائز ہو گا یا  یہ صورت جائز ہوگی؟

2۔اگر کرایہ دار یا مالک مکان کہے کہ گھر کا کرایہ تو دس ہزار ہی رہے گا،لیکن ہر ماہ سات ہزار کرایہ ادا کیا جائے گا،باقی تین ہزار کرایہ کی رقم ایڈوانس میں جو ایک لاکھ کی جگہ دو لاکھ جمع کرائی ہے،اس سے کٹوتی کر کے وصول کی جائے گی،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

3۔بعض اوقات مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان یہ طے ہو  جاتا ہے کہ ایک سال کا ایڈوانس کرایہ وصول کیا جائے گا،اور سیکیورٹی ڈپازٹ کی مد میں کچھ بھی و صول نہیں کیا جائے گا،چوں کہ مالک مکان کو یک مشت زیادہ رقم مل رہی ہوتی ہے، اس وجہ سے مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان یہ معاملہ معروف کرایہ سے کم  کرایہ پرطے پاتا ہے، مثلاً ہر ماہ کا کرایہ دس ہزار ہے، اس حساب سے سال کاکرایہ ایک لاکھ بیس ہزار بنتا ہے،  لیکن کرایہ دار اور مالک مکان عقد اجارہ کے وقت  ایک لاکھ بیس ہزار کے بجائے، سال بھر کا کرایہ پیشگی  دینے کی وجہ سے  سال کا کرایہ ایک لاکھ طے کر لیتے ہیں،کیا ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز ہوگا؟

4۔کسی علاقہ کے معروف کرایہ اور ایڈوانس سے قطع نظراور اس کا حوالہ اور تذکرہ کیے بغیر مالک مکان یا کرایہ دار کی جانب سے کسی متعین ایڈوانس اور متعین کرایہ کی عوض مکان یا دکان کے اجارہ کی پیشکش ہو،  اور فریقِ ثانی اسے قبول کرلے،خواہ ایڈوانس کم اور کرایہ زیادہ ہو یا کرایہ زیادہ اور ایڈوانس کم ہو، اس کا تذکرہ کیے بغیر ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

5۔کوئی شخص اپنی مکمل بلڈنگ کسی دوسرے کو کرایہ پر دیتا ہے،جس میں کئی فلیٹ ہوتے ہیں، کرایہ پر لینےوالا اس کے فلیٹ کو الگ الگ کرایہ پر دے دیتا ہے ،کیا اس طرح کرنا شرعاً جائز ہے؟

6۔پانچویں صورت میں ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ بلڈنگ یا مکان کا مالک دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ تم اسے کرایہ پر  دو اور جو نفع ہو گا وہ ہمارے درمیان طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا،جیسا کہ حرمین شریفین کے ہوٹل وغیرہ کی بلڈنگ میں بھی یہ صورت اختیار کی جاتی ہے،کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  مالک مکان کا کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور ایڈوانس  کی مد میں وصول کردہ رقم ابتداءً مالک مکان کے پاس امانت ہوتی ہے، جبکہ عرفاً مذکورہ رقم استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے،  اس بناء  پر انتہاءً مذکورہ رقم کی حیثیت  قرض کی ہوتی ہے، اور ایڈوانس  رقم پر قرض کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔نیز قرض پر مشروط نفع حاصل کرنا سود ہوتا ہے، لہذا

1۔ زیادہ  ایڈوانس جمع کرا نے کی وجہ سے کرایہ میں کمی کرنا شرعاً سود  ہونے کی وجہ ناجائز وحرام ہوگا۔

2۔ایسا کرنا جائز ہوگا۔

3۔سال بھر کا پیشگی کرایہ دینے کی وجہ سے باہمی رضامندی  سے کرایہ میں کمی کرنا جائز ہوگا۔

4۔اس صورت میں اگر معروف کرایہ اور ایڈوانس کا تذکرہ کیے بغیر بھی  مالک مکان  کرایہ دار سے  زیادہ ایڈوانس لے کرکم کرایہ طےکرتا ہے،توپہلی صورت کی طرح یہ بھی  سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہوگا،اور اگر ایڈوانس کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو تو یہ صورت شرعاً جائز ہے۔

5۔کرایہ پر مکمل بلڈنگ لینے کے بعد  اس کے فلیٹ آگے کرایہ پر دینا جائز ہے،البتہ بلڈنگ کے مالک نے آگے کرایہ پر دینے کی پابندی لگائی ہو،اور آگے کرایہ داری کا معاملہ ایسے شخص کے ساتھ ہو جس کاکام پہلے کرایہ دار سے مختلف ہو ،اور اس سےبلڈنگ کو نقصان پہننچتاہو،تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا،اور آگے کرایہ پر دینے کی صورت میں پہلے کرایہ دار اور مالک کے درمیان طے شدہ کرایہ سے زیادہ کرایہ پر دینا  بھی جائز نہیں ہے،البتہ دو صورتوں میں آگے زیادہ  کرایہ پر دینا جائز ہوگا،پہلی صورت یہ کہ جس کرنسی میں مالک اور کرایہ دار کا معاملہ ہوا ہے ،کرایہ دار دوسرے کرایہ دار کے ساتھ اس کے علاوہ کسی دوسری کرنسی یا متعین چیز  پر معاملہ کریں،یا کرایہ داراس بلڈنگ میں کچھ اضافی کام کریں ،مثلاً:رنگ، ٹائل وغیرہ لگا دیں،یا الماری بیڈ وغیرہ رکھ دیں،تو ان صورتوں میں اس کے لیے زیادہ کرایہ وصول کرناجائز ہے ۔

6۔اس صورت میں اگر مالک دوسرے شخص کو وکیل بناتاہے،اور دوسرا شخص بطورِ وکیل مالک کی طرف سے آگے کرایہ داری کا معاملہ کرتا ہے،تو اس  میں اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ شرعاًجائز نہیں ہے،اور اگر یہ وکالت کے علاوہ کوئی دوسری صورت ہے،تو اس کی وضاحت کرکے معلوم کیا جائے۔ 

 النتف فی الفتاوی میں ہے:

"‌‌الربا في القروض،فاما في القروض فهو على وجهين،احدها ان يقرض عشرة دراهم باحد عشر درهما او باثني عشر ونحوها والآخر ان يجر الى نفسه منفعة بذلك القرض او تجر اليه وهو ان يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع او يؤجره او يهبه او يضيفه او يتصدق عليه بصدقة او يعمل له عملا يعينه على اموره او يعيره عارية أو يشتري منه شيئا بأغلى مما يشتري او يستأجر اجارة باكثر مما يستأجر ونحوها ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فان ذلك ربا وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي كل دين جر منفعة لا خير فيه."

(‌‌كتاب الولاء، ‌‌الربا في القروض، ج:1، ص:484، ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"‌الضرورات ‌تبيح ‌المحظورات.الضرورة هي العذر الذي يجوز بسببه إجراء الشيء الممنوع."

( ‌الضرورات ‌تبيح ‌المحظورات،مادۃ:21، ج:1، ص:37، ط:دارالجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: ‌رجل ‌استقرض ‌دراهم ‌وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، والله - تعالى - أعلم."

(كتاب الإجارة، مطلب في استئجار الماء مع القناة واستئجار الآجام والحياض للسمك، ج:6، ص:63، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌لو ‌كان ‌للمستأجر على الآجر دينار والأجرة دراهم فتقاصا يجوز، وإن كان الجنس مختلفا بالتراضي. كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الإجارة، الباب الثاني والثلاثون في المتفرقات، ج:4، ص:523، ط:رشیدیه )

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"تلزم الأجرة بشرط التعجيل يعني لو شرط كون الأجرة معجلة، يلزم المستأجر تسليمها إن كان عقد الإجارة واردا على منافع الأعيان أو على العمل ففي الصورة الأولى للآجر أن يمتنع عن تسليم المأجور وفي الصورة الثانية للأجير أن يمتنع عن العمل إلى أن يستوفيا الأجرة وعلى كلتا الصورتين لهما المطالبة بالأجرة نقدا فإن امتنع المستأجر عن الإيفاء فلهما فسخ الإجارة.

تلزم الأجرة بشرط التعجيل: أي إذا شرط إعطاء الأجرة معجلة سواء أكان ذلك في أثناء عقد الإجارة أو بعده (انظر المادة 83)

سؤال: إن شرط التعجيل مناف لمقتضى العقد وفيه منفعة لأحد الطرفين ومقتضى ذلك أن تفسد به الإجارة فلم لم تفسد؟ الجواب: بما أن الإجارة عقد معاوضة فلا يكون شرط التعجيل في الأجرة مخالفا لمقتضى العقد لأن عقد الإجارة كالبيع يجب التعجيل فيه ولكن يسقط التعجيل في الإجارة لمانع المساواة.

وبما أن المساواة حق من حقوق المستأجر فبالتعجيل يكون قد أسقط ذلك الحق فيعود الممنوع بزوال المانع."

(الكتاب الثاني الإجارة، الباب الثالث في بيان مسائل تتعلق بالأجرة، الفصل الثاني المسائل المتعلقة بسبب لزوم الأجرة، ج:1، ص:531، ط:دارالجیل)

وفیہ ایضاً:

"المعروف عرفا كالمشروط شرطا وفي الكتب الفقهية عبارات أخرى بهذا المعنى " الثابت بالعرف كالثابت بدليل شرعي " و " المعروف عرفا كالمشروط شرعا " و " الثابت بالعرف كالثابت بالنص " والمعروف بالعرف كالمشروط باللفظ، وقد سبق لنا أن عرفنا العرف والعادة. فإليك الأمثلة على هذه القاعدة: لو اشتغل شخص لآخر شيئا ولم يتقاولا على الأجرة ينظر للعامل إن كان يشتغل بالأجرة عادة يجبر صاحب العمل على دفع أجرة المثل له عملا بالعرف والعادة، وإلا فلا، كذلك إذا اشترى شخص من آخر شيئا بعشر ليرات ولم يعين نوع الليرة يرجع إلى النوع المتعارف في تلك البلدة كأن يكون المتعارف الليرة العثمانية مثلا فتعتبر هي التي وقع عليها العقد، كما لو ذكرت."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، مادۃ:43، المعروف عرفا كالمشروط شرطا، ج:1، ص:51، ط:دارالجیل)

الأصل لمحمد بن الحسن میں ہے:

"شعبة بن الحجاج عن حماد عن إبراهيم في ‌رجل‌استأجر ‌دارا ‌فآجرها بأكثر من أجرها، أنه قال: ذلك ربا.

وقال أبو حنيفة: إذا استأجر الرجل عبدا يخدمه فأراد أن يؤاجره من غيره ليخدمه كان ذلك له، ولا يكون مخالفا، وإن كان استفضل في أجره شيئالم يطب له الفضل إلا أن يعينه ببعض متاعه،أو يعينه المستأجر الأول في عمله بشيء قليل، أو بشيء بنفسه أو ببعض أجرائه، فإن فعل ذلك طاب له الفضل."

(‌‌كتاب الحيل، باب الوجه في الخدمة وفضول أجورهم والثقة في ذلك، ج:9، ص:415، ط:دار ابن حزم، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(تصح) (إجارة حانوت) أي دكان ودار بلا بيان ما يعمل فيها) لصرفه للمتعارف (و) بلا بيان (من يسكنها) فله أن يسكنها غيره بإجارة وغيرها كما سيجيء (وله أن يعمل فيهما) أي الحانوت والدار (كل ما أراد) فيتد ويربط دوابه ويكسر حطبه ويستنجي بجداره ويتخذ بالوعة إن لم تضر ويطحن برحى اليد وإن به ضر به يفتى قنية (غير أنه لا يسكن) بالبناء للفاعل أو المفعول (حدادا أو قصارا أو طحانا من غير رضا المالك أو اشتراطه) ذلك (في) عقد (الإجارة) ؛ لأنه يوهن البناء فيتوقف على الرضا.

"(قوله فله أن يسكنها غيره) أي ولو شرط أن يسكنها وحده منفردا سرى الدين وهذا في الدور والحوانيت ط ومثله عبد الخدمة فله أن يؤجره لغيره، بخلاف الدابة والثوب، وكذا كل ما يختلف باختلاف المستعمل كما في المنح.

(قوله؛ لأنه يوهن إلخ) قال الزيلعي: فحاصله أن كل ما يوهن البناء أو فيه ضرر ليس له أن يعمل فيها إلا بإذن صاحبها، وكل ما لا ضرر فيه جاز له بمطلق العقد واستحقه به. (قوله فيتوقف على الرضا) أي رضا المالك أو الاشتراط."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:6، ص:28، ط:‌‌ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً:

" ولو آجر بأكثر تصدق بالفضلإلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا."

"(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:6، ص:29، ط:‌‌ایچ ایم سعید)

دررالحکام شرح مجلۃا لاحکام  میں ہے:

"(‌إذا ‌شرطت ‌الأجرة ‌في ‌الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل."

(الكتاب الحادي عشر الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، مادۃ:‌إذا ‌شرطت ‌الأجرة ‌في ‌الوكالة وأوفاها الوكيل، ج:3، ص:573، ط:دارالجیل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى ما يقابل المعقود عليه وهو الأجرة والأجرة في الإجارات معتبرة بالثمن في البياعات لأن كل واحد من العقدين معاوضة المال بالمال فما يصلح ثمنا في البياعات يصلح أجرة في الإجارات وما لا فلا وهو أن تكون الأجرة مالا متقوما معلوماوغير ذلك مما ذكرناه في كتاب البيوع.

‌والأصل ‌في ‌شرط ‌العلم ‌بالأجرة قول النبي صلى الله عليه وسلم «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان وجملة الكلام فيه أن الأجر لا يخلو إما إن كان شيئا بعينه وإما إن كان بغير عينه فإن كان بعينه فإنه يصير معلوما بالإشارة ولا يحتاج فيه إلى ذكر الجنس والصفة والنوع والقدر سواء كان مما يتعين بالتعيين أو مما لا يتعين كالدراهم والدنانيرويكون تعيينها كناية عن ذكر الجنس والصفة والنوع، والقدر على أصل أصحابنا."

(کتاب الاجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:193، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں