بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کراٹے میں باؤ کرنے کا حکم


سوال

پاکستان میں حکومتی سطح پر ایک گیم کھیلا جاتا ہے،  جس کانام ہے کراٹے "شوتوکان"،  جس میں سلام کرنے کا انداز ہے یعنی تعظیم کے طور پر جھکا جاتا ہے،  اور آپ اس کو نیٹ پر بھی سرچ کر سکتے ہیں کہ کتنا جھکتے ہیں،  آیا یہ کھیل کھیلنا جائز ہے اور اس کی کمائی حلال ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   مذکورہ  طریقہ  جسے  باؤ (bow)  کرنا کہتے ہیں، شرعًا اس طرح باری تعالی کے علاوہ کسی اور کے سامنے سلام  یا تعظیم  کی غرض سے  جھکنا حرام ہے، البتہ  اگر سامنے والے  کی تعظیم مقصود نہ ہو تو مکروہ ہے،  اور  کراہت  شدید نوعیت کی ہے، احادیث میں اس طرح جھکنے   کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہذا کراٹے وغیرہ میں اس عمل سے اجتناب لازم ہے، تاہم اگر  بہت معمولی سا جھکا  جائے تو   ممنوع نہیں ہوگا۔

باقی ورزش  و  نشاط بدن اور  اپنے دفاع کے  لیے کراٹے اور اس طرح کے کھیل کھیل سیکھنا  اور سکھانا جائز ہے، بشرطیکہ دوسرے شخص کے چہرے وغیرہ پر نہ مارا جائے، اور بالقصد کسی مسلمان بھائی کو زخمی نہ کیا جائے، اور  اس سے حاصل کردہ کمائی بھی حلال ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

باکسنگ کے کھیل کا حکم

سنن الترمذی میں ہے:

"2728 - حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ:  «لَا»،  قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟  قَالَ:  «لَا»،  قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟  قَالَ:  «نَعَمْ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ»."

(أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَابُ مَا جَاءَ فِي المُصَافَحَةِ، ٥ / ٧٥، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الِانْحِنَاءُ لِلسُّلْطَانِ أَوْ لِغَيْرِهِ مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ فِعْلَ الْمَجُوسِ كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. وَيُكْرَهُ الِانْحِنَاءُ عِنْدَ التَّحِيَّةِ وَبِهِ وَرَدَ النَّهْيُ كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ."

(كتاب الكراهية، الْبَاب الثَّامِن وَالْعُشْرُونَ فِي مُلَاقَاة الْمُلُوك وَالتَّوَاضُع لَهُمْ وَتَقْبِيل أيديهم،٥ / ٣٦٩، ط: دار الفكر)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"وَقَدْ يَكُونُ مُحَرَّمًا، كَالاِنْحِنَاءِ تَعْظِيمًا لإِِنْسَانٍ أَوْ حَيَوَانٍ أَوْ جَمَادٍ. وَهَذَا مِنَ الضَّلاَلاَتِ وَالْجَهَالاَتِ. وَقَدْ نَصَّ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الاِنْحِنَاءَ عِنْدَ الاِلْتِقَاءِ بِالْعُظَمَاءِ كَكِبَارِ الْقَوْمِ وَالسَّلاَطِينِ تَعْظِيمًا لَهُمْ - حَرَامٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ. لأَِنَّ الاِنْحِنَاءَ لاَ يَكُونُ إِلاَّ لِلَّهِ تَعَالَى تَعْظِيمًا لَهُ، وَلِقَوْلِهِ لِرَجُلٍ قَال لَهُ: يَا رَسُول اللَّهِ، الرَّجُل مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ.أَمَّا إِنْ كَانَ ذَلِكَ الاِنْحِنَاءُ مُجَرَّدَ تَقْلِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ، دُونَ قَصْدِ التَّعْظِيمِ لِلْمُنْحَنَى لَهُ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ، لأَِنَّهُ يُشْبِهُ فِعْل الْمَجُوسِ. قَال ابْنُ تَيْمِيَّةَ: الاِنْحِنَاءُ لِلْمَخْلُوقِ لَيْسَ مِنَ السُّنَّةِ، وَإِنَّمَا هُوَ مَأْخُوذٌ مِنْ عَادَاتِ بَعْضِ الْمُلُوكِ وَالْجَاهِلِينَ."

( انحناء، الحكم التكليفي، ٦ / ٣٢٣ - ٣٢٤)

وفیہ ایضا:

ثَانِيًا - الرُّكُوعُ لِغَيْرِ اللَّهِ:

14- قَال الْعُلَمَاءُ: مَا جَرَتْ بِهِ الْعَادَةُ مِنْ خَفْضِ الرَّأْسِ وَالاِنْحِنَاءِ إِلَى حَدٍّ لاَيَصِل بِهِ إِلَى أَقَل الرُّكُوعِ - عِنْدَ اللِّقَاءِ - لاَ كُفْرَ بِهِ وَلاَ حُرْمَةَ كَذَلِكَ، لَكِنْ يَنْبَغِي كَرَاهَتُهُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لِمَنْ قَال لَهُ: يَا رَسُول اللَّهِ، الرَّجُل مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟  قَال: لاَ، قَال: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟  قَال:  لاَ، قَال: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟  قَال:  نَعَمْ . الْحَدِيثَ.

أَمَّا إِذَا انْحَنَى وَوَصَل انْحِنَاؤُهُ إِلَى حَدِّ الرُّكُوعِ فَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّهُ إِنْ لَمْ يَقْصِدْ تَعْظِيمَ ذَلِكَ الْغَيْرِ كَتَعْظِيمِ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ كُفْرًا وَلاَ حَرَامًا، وَلَكِنْ يُكْرَهُ أَشَدَّ الْكَرَاهَةِ لأَِنَّ صُورَتَهُ تَقَعُ فِي الْعَادَةِ لِلْمَخْلُوقِ كَثِيرًا.

وَذَهَبَ بَعْضُهُمْ إِلَى حُرْمَةِ ذَلِكَ وَلَوْ لَمْ يَكُنْ لِتَعْظِيمِ ذَلِكَ الْمَخْلُوقِ، لأَِنَّ صُورَةَ هَيْئَةِ الرُّكُوعِ لَمْ تُعْهَدْ إِلاَّ لِعِبَادَةِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ. قَال ابْنُ عَلاَّنَ الصِّدِّيقِيُّ: مِنَ الْبِدَعِ الْمُحَرَّمَةِ الاِنْحِنَاءُ عِنْدَ اللِّقَاءِ بِهَيْئَةِ الرُّكُوعِ، أَمَّا إِذَا وَصَل انْحِنَاؤُهُ لِلْمَخْلُوقِ إِلَى حَدِّ الرُّكُوعِ قَاصِدًا بِهِ تَعْظِيمَ ذَلِكَ الْمَخْلُوقِ كَمَا يُعَظِّمُ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى، فَلاَ شَكَّ أَنَّ صَاحِبَهُ يَرْتَدُّ عَنِ الإِْسْلاَمِ وَيَكُونُ كَافِرًا بِذَلِكَ، كَمَا لَوْ سَجَدَ لِذَلِكَ الْمَخْلُوقِ."

( حرف الراء، ركوع،٢٣ / ١٣٤ - ١٣٥)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں