1۔ sopt trading cryptocurrency پر انویسٹ کرنا اور اس پر منافع لینا جائز ہے کہ نہیں؟
2۔اگر جائز نہیں ہے تو جو اس سے نفع لے رہا ہے، اس کے ساتھ کھانا پینا جائز ہے کہ نہیں ؟
1۔از روئے شرع کرپٹو کرنسی میں سپاٹ ٹریڈنگ جائز نہیں ہے، کیوں کہ کرپٹوکرنسی "بٹ کوائن "محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط موجود نہیں ہیں،اور نہ ہی اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز ہوتی ہے، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا ،نیز پاکستان میں اسے قانونی کرنسی کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے ، لہذا کرپٹو کرنسی کا کام کرنا،یااس کے ذریعہ لین دین اورسرمایہ کاری کرنا اور منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔
2۔صورت مسئولہ میں اگراس شخص کی آمدن صرف یہی ہو، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا کھلائے تو جان بوجھ کر ایسے شخص کا کھانا کھانا جائز نہیں ہےاوراگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے کھانا کھلائے تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا ،لیکن اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کاکھانا، کھانا جائز ہوگا۔ اور اگر حلال اور حرام دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہواور آمدن بھی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں بھی اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا،لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس کا کھانا کھانے کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."(المائدة: الآية:90)
ترجمہ:” اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو“۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(كتاب الحظر والإباحة ، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: دارالفكر)
المحيط البرهاني میں ہے:
"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه."
(كتاب الإستحسان والكراهية، الفصل السابع عشر ....، ج: 5، ص: 367، ط: دارالکتب العلمیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."
(كتاب الكراهية، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ج: 5، ص: 342، ط: رشیدیة)
وفیه أیضاً:
"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."
(کتاب الکراهیة، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ج: 5، ص: 343، ط: رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604102850
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن