میں نے کسی شخص سے دو لاکھ روپے لئےکہ بعد میں پانچ مہینے بعد آپ کو دو لاکھ چالیس ہزار دوں گا، لیکن صورت اس طرح بنائی کہ ایک لاکھ پچاس ہزار پاکستانی روپے لیے اور پچاس ہزار کی ملائیشین کرنسی لی، تو اس صورت میں ربو(سود) کا کیا حكم ہے؟
واضح رہے کہ قرض کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اور جس کرنسی میں لیا جائے اتناہی اور وہی کرنسی واپس کی جائے ،قرض کی واپسی میں اضافے کی شرط لگانا جائز نہیں ہے ، البتہ اگرقرض لینے والا از خود کچھ مقدار زیادہ واپس کردے تو اس کی اجازت ہے ،لہذا صورت مسئولہ میں قرض لینے والے کا دولاکھ روپے سے زیادہ واپسی کا مطالبہ کر نا سود کے زمرے میں آئےگااور جوحیلہ اختیار کیا گیاہے یہ بھی سود ہی کے زمرےمیں آتاہے،اس وجہ سے سائل کے ذمے لازم ہے کہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے پاکستانی اور پچاس ہزار ملائیشین کرنسی واپس کردے،البتہ اگر واپسی کے وقت باہمی رضامندی سے ملا ئیشین کرنسی کے بجائے اس کی موجودہ مالیت کے برابرپاکستانی روپے دیدے تو اس کی گنجائش ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو استقرض فلوسا نافقة، وقبضهاولم تكسد، ولكنها رخصت أو غلت فعليه رد مثل ما قبض بلا خلاف."
(كتاب البيوع،فصل واماحكم البيع،5/242،ط سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408100835
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن