بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہے ، شیخ عبدالحق کی ایک عبارت سے اہلِ باطل کا غلط استدلال اوراس عبارت کا صحیح معنی و مفہوم


سوال

اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ معجزہ اور کرامت خدا تعالٰی کا فعل ہوتا ہے جو نبی اور ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور نبی اور ولی کو اس کے صدور پر کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے اکابر کی عبارات سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرامت کاصدور ولی کے اختیار میں ہوتا ہے جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لمعات التنقیح میں کرامت کے بارے میں لکھتے ہیں :"والحق جواز وقوعها قصداً و اختیاراً"۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ عبارت اور جہاں جہاں ہمارے اکابر کی کتابوں میں کرامت کے بارے میں "قصد "اور "اختیار" کے الفاظ آتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہے ؟صاف الفاظ میں  واضح کریں؛ کیونکہ اہل  بدعت اس طرح کی عبارات کو لے کر  عوام کے اندر یہ عقیدہ پھیلاتے ہیں کہ کرامت کا صدور ولی کے اختیار میں ہے ، جس  سے عوام کے عقائد خراب ہونے کااندیشہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ  یہی ہے کہ معجزہ اور کرامت خدا تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو نبی اور ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور نبی وولی کو اس کے صدور پر کوئی اختیار نہیں ہوتاہے۔

باقی"لمعات التنقیح" کی مذکورہ عبارت  کا  مطلب حضرت شیخ  کی دیگر عبارات کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ   ولی جب خودی کو مٹا کر فنا ہو جاتا ہے اور ہر وقت باری تعالی کی چاہت کی تلاش میں لگا رہتا ہے اور ہر آن ہر گھڑی اللہ تعالی کے استحضار کے ساتھ جیتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کی چاہت اس کی چاہت ہو جاتی ہے  اور  ارادت و  مشیت ِ ایزدی کے سوا اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا  ، تو پھر باری تعالی اپنی مشیت و ارادت کے ساتھ  اس کی تکریم  و تصدیق کے لیے اس کے ہاتھ  پر      خرق ِ عادت امرکا بطور   کرامت  اظہار فرمادیتاہے ،پھر احقاقِ حق کے لیے جب وہ اس کرامت کے اظہار کا قصد و ارادہ کرے ،اوراللہ کی مشیت  شامل حال ہو تو کرامت کا ظہور ہوجاتاہے ،لیکن  اس عبارت کا یہ مطلب  ہرگز نہیں  کہ ولی خداوند ِکریم   کی طرح خود کائنات میں متصرف  ہو تا ہے ،اللہ تعالی کے ارادے  کا پابند نہیں ہوتا ، کائنات میں جب چاہے اور   جس قسم کا تصرف کرنا چاہے ، کرسکتا ہے ،  جیسا کہ اہل ِ بدعت کا نظریہ ہے ؛ لہذا اہل ِ بدعت کا اپنے باطل نظریہ کے ثبوت کے لیے حضرت شیخ کی مذکورہ  عبارت یا اس سے ملتی جلتی دیگر عبارات  سے استدلال کرنا غلط  ہے ۔

 اولیاء اور صوفیاء  حضرات کی کتب میں یہ بات  صراحت  کے ساتھ  مکتوب  ہے کہ : "کرامت  کا صدور ولی کے قصد و  اختیار میں نہیں ہوتا ،  بلکہ وہ محض اللہ تعالی کا فعل ہوتا ہے جس کو  اللہ تعالی ولی کی تکریم کے لیے اس کے ہاتھ پر صادر کر دیتا ہے"، خود حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ جن کی عبارت سائل نے نقل کی ہے،  دوسری جگہ واضح طور پر اس بات کی نفی فرماتے ہیں  اور لکھتے ہیں کہ:" معجزہ و کرامت فعل ِخدا است کہ ظاہر مے گرددبر د ست بندہ بجہت تصدیق و تکریم وے نہ فعل بندہ است کہ صادر میگر د و بقصد و اختیار او مثل سائر افعال"یعنی معجزہ اور کرامت اللہ تعالی کا فعل ہوتا ہے جوبندہ کے ہاتھ  پر اس کی تصدیق اور تکریم کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ معجزہ اور کرامت بندہ کا فعل نہیں ہوتا جو اس کے قصد و اختیار سے صادر ہو  جیسا کہ اس کے دوسرے اختیاری افعال ہوتے ہیں ۔

اور اس سلسلے  میں اکابرین کی بعض عبارات ملاحظہ  ہوں :

1۔سید الطائفۃ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فتوح الغیب میں   لکھتے ہیں: 

"فحين اذ يضاف اليك التكوين و خرق العادات فيري ذالك منك في ظاهر العقل و الحكم و فعل الله و ارادته حقا في العلم الخ۔"

(فتوح الغيب ، المقالة السادسة : 66 ، ط : دار الهادی مکتبہ دار الزاهر)

ترجمه: "تیری طرف تکوین اور خورق عادات کی نسبت کی جائے گی اور یہ چیز عقل کے  ظاہر فیصلہ کے  مطابق تجھ سے دیکھی جائے گی ،  حالانکہ درحقیقت اور اعتقادی طور پر فی الواقع یہ اللہ تعالی کا فعل اور اس کا ارادہ  ہوتا ہے (جو  تیرے ہاتھ پر صادر کیا جاتا ہے )۔"

اس کی تشریح میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی "ترجمہ فتوح الغیب" میں  لکھتے ہیں :

"پس  چوں فانی شدی از خودی نماند جز  فعل وارادت در تو نسبت کردہ می شود بسوئے تو پیدا کردن کائنات وپارہ کردن عادات یعنی متصرف مے گرداند ترا در عالم بخوارق و کرامات پس دیدہ مے شود آں فعل و تصرف از تو در ظاہر عقل و حکم وےو  لیکن در باطن و نفس الامر  فعل پرور دگار است تعالی چہ معجزہ و کرامت فعل ِخدا است کہ ظاہر مے گرددبر د ست بندہ بجہت تصدیق و تکریم وے نہ فعل بندہ است کہ صادر میگر د و بقصد و اختیار او مثل سائر افعال چنانچہ فرمودہ اندو حال آنکہ آن خرق عادت فعل و تصرف خدا است الخ۔"

ترجمہ: "پس جب تو اپنی خودی کو مٹاکر فانی ہو جائے اور تجھ میں فعل و ارادت کے بغیر اور کچھ بھی باقی نہ رہے تو تیری طرف کائنات کی تخلیق اور خرقِ عادات کے امور منسوب کیے جائیں گے یعنی تجھے جہاں میں متصرف  گردانا جائے  گا ۔خوارق اور کرامات کے سلسلہ میں پس ظاہری طور پر وہ فعل اور تصرف تجھ سے صادر ہوگا ،  مگر باطن اور نفس الامر میں وہ پروردگار کا فعل  ہوگا  ؛ کیونکہ معجزہ اور کرامت اللہ تعالی کا فعل ہوتا ہے جوبندہ کے ہاتھ  پر اس کی تصدیق اور تکریم کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ معجزہ اور کرامت بندہ کا فعل نہیں ہوتا جو اس کے قصد و اختیار سے صادر ہو جیسا کہ اس کے دوسرے اختیاری افعال ہوتے ہیں ۔چنانچہ خود حضرت شیخ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ خرق عادت اور تصرف اللہ تعالی کا فعل ہوتا ہے جو بندہ کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے۔"

(ترجمہ فتوح الغیب ازشیخ عبدالحق  محدث دہلوی : 27 ،  بحوالہ راہِ ہدایت :54 ، ط : مکتبہ صفدریہ ،مؤلفہ : شیخ التفسیر مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ )

2۔حضرت ایک اور جگہ پر تحریر فرماتے ہیں :

"یعنی آن در حقیقت فعل حق است کہ بر دستِ ولی ظہور یافتہ  چنانچہ معجزہ برد ست نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔"

ترجمہ: "در حقیقت وہ اللہ تعالی کا فعل ہوتا ہے جو ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے جیسا کہ معجزہ نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتاہے (مگر خدا کا فعل ہوتا ہے)"

(ترجمہ فتوح الغیب ازشیخ عبدالحق  محدث دہلوی : 27 ، بحوالہ راہ ِ ہدایت :55 ، ط :مکتبہ صفدریہ ،مؤلفہ : شیخ التفسیر مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ )

3۔ فتاوی رشیدیہ میں ہے :

سوال : کرامت اس کے اختیار میں ہے یا نہیں؟

جواب: اختیار میں نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ان کی عزت بڑھانے کو ان کے ہاتھ سے ظاہر کر دیتا ہے  ۔

(فتاوی رشیدیہ :181، ط :ادارہ اسلامیات لاہور )

4 ۔«جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية»میں ہے :

"فإن كراماتهم حق ثابتة، يظهرها الله على أيدي أوليائه، ولكن الكرامة لا تصدر منهم كل وقت، ولا هم قادرون عليها، ولا اختيار لهم في صدور الكرامات بحيث يفعلونها ما يشاءون ۔"

(‌‌الفصل الثالث : 2 / 986 ، ط : دار الصميعي)

5۔ لوامع الأنوار البهية ميں ہے:

"والحاصل أن الأمر الخارق للعادة فهو بالنسبة إلى النبي معجزة سواء ظهر من قبله أو من قبل آحاد أمته، وهو بالنسبة للولي كرامة لخلوه عن دعوى نبوة من ظهر ذلك من قبله، فالنبي لا بد من علمه بكونه نبيا، ومن قصد إظهار خوارق العادات وظهور المعجزات، وأما الولي فلا يلزم أن يعلم بولايته ويستر كرامته ويسرها، ويجتهد على إخفاء أمره كما تقدمت الإشارة إلى ذلك كله الولاية موهبة من الله تعالى غير مكتسبة ولا يصل الولي ما دام عاقلا بالغا إلى مرتبة سقوط التكليف عنه بالأوامر والنواهي۔"

(فصل في ذكر كرامات الأولياء وإثباتها : 2/ 396 ، ط : مؤسسة الخافقين ومكتبتها - دمشق)

6۔ أعلام السنة المنشورة لاعتقاد الطائفة الناجية المنصورة   میں ہے :

"كرامات ‌الأولياء حق، وهو ظهور الأمر الخارق على أيديهم الذي لا صنع لهم فيه، ولم يكن بطريق التحدي، بل يجريه الله على أيديهم، وإن لم يعلموا به كقصة أصحاب الكهف، وأصحاب الصخرة۔"

(حكم ‌كرامات ‌الأولياء : 137 ، ط : وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں