بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پردئیے گئےپلاٹ اورمیراث میں ملنے والے پلاٹ میں زکٰوۃ کاحکم


سوال

1۔کرایہ پر دیے گئے پلاٹ کی مالیت پر زکٰوۃ واجب  ہوتی ہے یا اُس کے کرایہ پر؟

2۔مجھے والد صاحب کے ترکہ میں ایک پلاٹ ملاہے ،جس کے تین سال میرے پاس ہوگئے ،اب میری نیت اِس کو بیچنے کی ہے تو اب میرے اوپر زکٰوۃ کب واجب ہوگی ،بیچنے سے پہلے یابیچنے کے بعد؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جو   پلاٹ کرایہ پر دیاہواہےاُس کی مالیت پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی ، البتہ حاصل شدہ کرایہ اگر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے،یا زکٰوۃ دینے کی تاریخ مقررہو اور وہ تاریخ آجائے تو اس صورت میں اس وقت تک موجودکرایہ کی رقم پر زکوٰة واجب ہوگی۔

2۔ترکہ میں  ملنے والے پلاٹ پر زکٰوۃواجب نہیں ہوتی اگرچہ وارث کی نیت اُسے فروخت کرنے کی ہو،لہٰذاجو پلاٹ سائل کومیراث میں ملاہے فروخت کرنے سے پہلےاس پر زکٰوۃ واجب نہیں ہے،فروخت کرنے کے بعد  اگر سائل پہلے سے صاحب ِنصاب ہو  یا اس پلاٹ کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو اور اس پر ایک سال سائل کے پاس گزرجائے یا اس کی زکٰوۃ ادا کرنے  کی تاریخ آجائےتو اس کی رقم پر بھی   زکٰوۃ واجب ہوگی۔ 

مجموع فتاوٰی ابن باز میں ہے:

"أما إن كان العقار من بيت أو حانوت أو أرض معدا للإجارة فإن الزكاة لا تجب في أصله وإنما تجب في الأجرة إذا بلغت النصاب وحال عليها الحول؛ لعموم الأدلة الدالة على وجوب الزكاة في النقديين، أو ما يقوم مقامهما من الأوراق النقدية إذا حال عليها الحول."

(کتاب الزکٰوۃ،باب زکٰوۃ عروض التجارۃ،167/14، ط:ادارۃ البحوث العلمیة)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها)لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل۔قال ابن عابدين:(قوله أي ناويا) قال في النهر: يعني نوى وقت البيع مثلا أن يكون بدله للتجارة ولا تكفيه النية السابقة كما هو ظاهر ما في البحر. اهـ(قوله: فتجب الزكاة) أي إذا حال الحول على البدل۔۔۔۔۔۔۔قال في فتح القدير: والحاصل أن نية التجارة فيما يشتريه تصح بالإجماع، وفيما يرثه لا بالإجماع."

(كتاب الزكٰوۃ،273/2،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں