کاٹن کے سفید کپڑوں میں بعض دفعہ یہ معاملہ پیش آتا ہے کہ دوران وضوران/ گھٹنے پر جو پانی کے قطرے گرتے ہیں ان سے جلد کا رنگ نظر آنے لگتا ہے، البتہ ستر بالکل واضح نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تھوڑا زیادہ پانی لگ جائے تو جلد کے رنگ کے ساتھ ران / گھٹنے کے بال بھی کپڑے سے نظر آنے لگتے ہیں کیا ایسی حالت میں نماز شروع کر سکتے ہیں جب کہ جماعت کھڑی ہوگئی ہو؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کپڑے اتنے باریک ہوں کہ وضو کرتے وقت ران اور گھٹنوں پرپانی گرنے کی وجہ سے کپڑے گیلے ہو نے کے بعد جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہو تو ستر کھلا ہونے کی وجہ سے نماز شروع کرنا جائز نہیں ، اگر اسی حالت میں نماز شروع کی تو نماز صحیح نہیں ہوگی، لہٰذا ایسی حالت میں دوسرے کپڑے پہن کر یا کپڑوں کو کم از کم اس قدر خشک کرکے نما ز شروع کی جائے کہ ستر چھپا ہوا ہو۔ البتہ اگر قمیص یا کرتا اتنا لمبا ہو کہ وہ حصہ چھپ جائے تو پھر نماز میں شامل ہونے کی گنجائش ہے۔
رد المحتار میں ہے :
"واعلم أن هذا التفصيل في الانكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لابتدائها فإنه يمنع انعقادها مطلقا اتفاقا بعد أن يكون المكشوف ربع العضو."
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، ج : 1، ص : 408)
حلبی کبیر میں ہے :
"(وفي شرح شمس الائمة السرخسى اذا كان الثوب رقيقا ) بحيث ( يصف ما تحته ) اي لون البشرة ( لا يحصل به سترة العورة ( اذلاستر مع رؤية لون البشرة اما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة الا انه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي ان لا يمنع جواز الصلوة الحصول الستر وفي القنية لوستر عورته بزجاج يصف ما تحته ينبغي ان لا يجوز ."
(وجوب الصلاة، الشرط الثالث : ستر العورة، ص : 187/88، ط : مکتبة نعمانیة)
فتاویٰ حقانیہ میں ہے :
"سوال :آج کل ایسے کپڑوں کا استعمال عام ہے جن میں سارا بدن واضح طور پر نظرآتا ہے ، ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
الجواب :- آزاد عورت کا تمام بدن عورت (ستر) ہے اور مردوں کا ناف سے لے کر گھٹنوں تک، نماز میں بدن کے ان حصوں کا چھپانا فرض ہے، لہذا اگر کسی عورت کے بدن کا کوئی حصہ ان کپڑوں میں نظر آتا ہو یا مرد کا ستر والا حصہ چھپا ہوا نہ ہو تو اس صورت میں نماز نہیں ہوتی اور اس کا اعادہ واجب ہے ۔"
( کتاب الصلاۃ، باب مکروہات الصلاۃ، ج : 3، ص : 199، ط : جامعہ دار العلوم حقانیہ)
خیرالفتاویٰ میں ہے :
"اگر کپڑا اتنا باریک ہے کہ بال نظر آتے ہیں تو اسے اوڑھ کر نماز پڑھنے سےنماز نہیں ہوگی ، دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔"
(کتاب الصلاۃ، ما يفسد الصلوة وما يكره فيها، ج : 2، ص : 422، ط : مکتبہ امدادیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100747
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن