بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کپڑے کے عام موزوں پر مسح کرنے کا حکم


سوال

مسئلہ پتا کرنا ہے کہ جراب کے اوپر مسح ہوتا ہے یا نہیں؟ ایک معروف عالمِ دین کے بیان میں سنا کہ کپڑے کی جرابوں پر مسح کرناجائز ہے،آپ حضرات راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ موزوں پر مسح کے صحیح ہونے کےلیے ان کے مکمل چمڑے کا ہوناپہلادرجہ ہے،دوسرادرجہ یہ ہے کہ اوپر اور نیچے والے حصے کا چمڑے کاہو،تیسرااورکم از کم درجہ یہ ہے کہ صرف نیچے والاحصہ چمڑے کا ہو،اس طرح کے موزوں پر اس شرط کے ساتھ مسح کرنے کی فقہاءِ امت نے اجازت لکھی ہےکہ (1)اس پورےموزے سے پوراپاؤں ٹخنے سمیت چھپ جائے،اور موزےکا کوئی حصہ خالی نہ بچے،(2)نیزاس موزے میں مستقل چلنااور سفر کرنابھی ممکن ہو۔

اوراگر وہ موزہ تین درجات میں سے کسی بھی درجہ میں چمڑے کا نہ ہوتو ایسے موزے پر مسح کےجواز کےلیے فقہاء نے کچھ شرطیں مزیدلگائی ہیں،پہلی یہ کہ وہ موزہ اتناموٹاہو کہ جس میں سے پانی نہ چھنتا ہو اور نہ ہی اس سے نیچے کی جلد نظر آتی ہو اوردوسری یہ کہ وہ موزہ اتناسخت ہوکہ اپنی سختی اور صلابت کی وجہ سےکوئی چیزباندھے بغیرپاؤں پر ٹکا رہے۔

صورتِ مسئولہ میں جرابوں میں چوں کہ یہ شرائط موجود نہیں؛ لہٰذا اس پر مسح کرناجائز نہیں،اور آپ نے کسی عالم سے جو یہ  بات سنی ہے کہ جرابوں پر مسح کرناجائز ہے،یہ بات درست نہیں۔

الفتاوی الهنديةمیں ہے:

"(منها) أن يكون الخف مما يمكن قطع السفر به وتتابع المشي عليه ويستر الكعبين وستر ما فوقهما ليس بشرط. هكذا في المحيط حتى لو لبس خفا لا ساق له يجوز المسح إن كان الكعب مستورا ويمسح على الجورب المجلد وهو الذي وضع الجلد على أعلاه وأسفله. هكذا في الكافي والمنعل وهو الذي وضع الجلد على أسفله كالنعل للقدم. هكذا في السراج الوهاج والثخين الذي ليس مجلدا ولا منعلا بشرط أن يستمسك على الساق بلا ربط ولا يرى ما تحته وعليه الفتوى. كذا في النهر الفائق ... وإذا لبس الجرموقين فإن لبسهما وحدهما فإن كانا من كرباس أو ما يشبهه لا يجوز المسح عليهما وإن كانا من أديم أو ما يشبهه يجوز."

(ص:٣٢،ج:١،کتاب الطهارة،الباب الخامس في المسح على ‌الخفين،ط:دار الفكر،بيروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما المسح على الجوربين، فإن كانا مجلدين، أو منعلين، يجزيه بلا خلاف عند أصحابنا وإن لم يكونا مجلدين، ولا منعلين، فإن كانا رقيقين يشفان الماء، لا يجوز المسح عليهما بالإجماع."

(ص:١٠،ج:١،کتاب الطهارة،فصل المسح علي الخفين،ط:دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"(أو جوربيه) ولو من غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق ولا يرى ما تحته ولا يشف.

(قوله ولو من غزل أو شعر) دخل فيه الجوخ كما حققه في شرح المنية. وقال: وخرج عنه ما كان من كرباس بالكسر: وهو الثوب من القطن الأبيض؛ ويلحق بالكرباس كل ما كان من نوع الخيط كالكتان والإبريسم ونحوهما. وتوقف ح في وجه عدم جواز المسح عليه إذا وجد فيه الشروط الأربعة التي ذكرها الشارح وأقول: الظاهر أنه إذا وجدت فيه الشروط يجوز، وأنهم أخرجوه لعدم تأتي الشروط فيه غالبا، يدل عليه ما في كافي النسفي حيث علل جواز المسح على الجورب من كرباس بأنه لا يمكن تتابع المشي عليه، فإنه يفيد أنه لو أمكن جاز، ويدل عليه أيضا ما في ط عن الخانية أن كل ما كان في معنى الخف في إدمان المشي عليه وقطع السفر به ولو من لبد رومي يجوز المسح عليه ... (قوله بنفسه) أي من غير شد ط (قوله ولا يشف) بتشديد الفاء، من شف الثوب: رق حتى رأيت ما وراءه."

(ص:٢٦٩،ج:١،کتاب الطهارة،باب المسح علي الخفين،ط:ايج ايم سعيد)

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال:محض کپڑے کی جراب مروجہ پرمسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ میں نے ایک مولوی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا تھا، اس کے جواب میں انہوں نے یہ فرمایا کہ رسول خدا سے کپڑے کی جراب پر مسح کرنا ثابت ہے، کوئی قید پتلی یا غف کی نہیں ہے۔

( جواب ) جور بین پرمسح کرنا درست نہیں ہے، اس واسطے کہ جو از مسح علی الجوربین کے لئے چار شرطیں ہیں: تین شرطیں تو وہ ہیں کہ جو خفین کے مسح میں بھی مشروط ہیں، ایک شرط جوربین کے مسح میں زائد ہے۔۔۔ اگر یہ چاروں شرطیں جو ربین میں پائی جاویں تب مسح درست ہوگا، یعنی وہ قدم کو مع ٹخنوں کے ساترہوں، دوسرے یہ کہ قدم مشغول ہوں، یعنی قدم کوڈھانپ کر کچھ حصہ ان کا باقی نہ بچے، تیسری یہ کہ ان میں چلنے کی عادت بھی ہو، چوتھی یہ کہ ایسے گاڑھے ہوں کہ کوئی چیز ان میں سرایت نہ کر سکےاور چوں کہ یہ سب امور جرابہائے مروّجہ میں مفقود ہیں، لہٰذامسح ان پر جائز نہیں۔‘‘

(ص:٢٠٣،ج:١،کتاب الطہارات،الباب الخامس فی المسح علی الخفین،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505102128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں