بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کپڑے فروخت کرنے کے لیے پی ڈی ایف میں نامحرم کی تصاویر بھیجنے کا حکم


سوال

 الحمدللہ میں ایک پرائیویٹ فیکٹری میں جاب کرتا ہوں ،اور پارٹ ٹائم میرا لیڈیز کے  کپڑے کا کام ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ  میں  لاہور اور کراچی سےمال خریدتا ہوں تو وہ مجھے پی ڈی ایف بھیجتے ہیں، پی ڈی ایف میں جان دار کی تصویریں ہوتی ہیں،  پی ڈی ایف فائل کے اوپرعورتوں کی لڑکیوں کی تصویریں ہوتی ہیں، جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا آج کل سیل فون کے اوپر ہی پی ڈی ایف فائل میں ڈیزائن پسند کیے جاتے ہیں، اور آرڈر دیا جاتا ہے، پھر مال وہ بھجوا دیتے ہیں، اور جو مال میں آگے سیل کرتا ہوں، ان کو بھی میں پہلے پی ڈی ایف بھیجتا ہوں وہ مال پسند کرتے ہیں تو پھر میں منگواتا ہوں جو پی ڈی ایف فائل ہے اس میں 10، 15، 25، 30 جان دار کی تصویریں ہوتی ہیں،جو اوپر لگائی ہوتی ہیں جو کہ بلر (خراب)نہیں کی جا سکتیں ،میں نے سافٹ ویئر ہاؤس والوں سے بھی رابطہ کیا،سافٹ ویئر ہاؤس والوں نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے یا ایسا کوئی سافٹ ویئر فی الحال موجودنہیں ہے، جس سے تمام پی ڈی ایف فائل کی تصویریں بلر (خراب)کی جاسکے، ہاں ایک ایک کر کے بلر کی جا سکتی ہیں، مگر اس میں تقریبا دو ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں، اتنی دیر میں مال ختم ہو جاتا ہے، جو پی ڈی ایف فائل ہمیں بھیجی جاتی ہے موبائل فون پر اس میں جو ڈیزائن ہوتے ہیں پی ڈی ایف فائل کے اوپر وہ 10 ۔15 یا ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ نے ان کو بتانا ہوتا ہے اور پسند کرنا ہوتا ہے اور ایڈوانس پیمنٹ کرنی ہوتی ہے، اگر آپ زیادہ دیر کرو گے تو مال ختم ہو جاتا ہے، میں تو تصویریں سیل نہیں کرتا ہوں، نہ میرا ارادہ ہوتا ہے میں تو کپڑا سیل کرتا ہوں تو کیا یہ کام میرے لیے جائز ہے ،کیوں کہ جو میں آگے پی ڈی ایف بھیجتا ہوں جو میرے گاہک ہے جو میرے کسٹمر ہے ان سب کو بھی میں وہ پی ڈی ایف بھیجتا ہوں تو پھر وہ پی ڈی ایف میں 15 20 30 تصویریں ہوتی ہیں تو پھر ان میں میرے کسٹمر سوٹ پسند کرتے ہیں کہ یہ کلر میرے لیے رکھ لو۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ   جان دار کی تصویر سازی اور اس کی تشہیر کرنا  شرعاً ناجائز اور  حرام ہے، اس پر احادیثِ مبارکہ  میں شدید  وعید  وارد ہوئی  ہے،نیز اگر اشیاء فروخت کرنے میں جان دار کی تصاویر فروخت کرنا مقصود ہو،تو   ایسی اشیاء کی خرید و فروخت ناجائز ہے اور ان سے حاصل ہونے والے منافع بھی ناجائز ہیں اور اگر ایسی اشیاء کی خرید و فروخت سے مقصود  جان دار کی تصاویر کی خرید و فروخت نہ ہو، بلکہ ان اشیاء کی خرید وفروخت مقصود ہو، تو ایسی اشیاء کی خریدو فروخت جائز ہے اور ان سے حاصل ہونے والے منافع بھی جائز ہیں، تاہم اس سے احتیاط کرنا بہترہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں گاہک کو کپڑوں کی تصاویر بھیجتے ہوئے اگرچہ ضمناً نامحرم خواتین کی تصاویر بھی ارسال کرنا لازم آتا ہے ،لیکن چوں کہ مقصد صرف کپڑے فروخت کرنا ہوتا ہے، اس لیے سائل کی کمائی حلال ہوگی،البتہ نامحرم کی تصاویر  آگے بھیجنے کا گناہ ہوگا،اس گناہ سے جتنا بچنا ممکن ہو بچا جائے ورنہ توبہ و استغفار کی جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 647، ط: سعید)

شرح السیر الکبیر میں ہے:

"ألا ترى أن المسلمين يتبايعون بدراهم الأعاجم فيها التماثيل بالتيجان، ولا يمتنع أحد عن المعاملة بذلك. وإنما يكره هذا فيما يلبس أو يعبد من دون الله من الصليب ونحوها.

1940 - وحكم هذه الأشياء كحكم ما لو أصابوا برابط وغيرها من المعازف. فهناك ينبغي له أن يكسرها ثم يبيعها أو يقسمها حطبا. قال: إلا أن يبيعها قبل أن يكسرها ممن هو ثقة من المسلمين يعلم أنه يرغب فيها للحطب لا للاستعمال على وجه لا يحل، فحينئذ لا بأس بذلك.لأنه مال منتفع به. فيجوز بيعه للانتفاع به بطريق مباح شرعا."

(أبواب سهمان الخيل والرجالة في الغنائم، باب ما يحمل عليه الفيء وما يجوز فعله بالغنائم في دار الحرب، ص: 1051، ط: الشركة الشرقية للإعلانات)

کفایت المفتی میں ہے:

”تصویروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں اور کسی اور غرض کے لیے ،البتہ ایسی اشیاءجن میں تصویر کا خریدنا بیچنا مقصود نہ ہو، جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے،مگر تصویر کی بیع و شراءمقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے۔“

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج9،ص235،  ط:الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں