بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاں، ظاہر ہے کب تک بغیر نیت طلاق کہنے کا حکم


سوال

میں نے بیوی سےمیسج پر کہا کہ ہمارا مزید ساتھ چلنا مشکل ہے، والد سے کہہ دو میں یہ بار گراں نہیں اٹھا سکتا،اس میں طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی،بیوی نے پوچھا مطلب؟ آپ طلاق دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟میں نے کہا كه ہاں اور  زبان سے کہا کہ ایسا نہیں ،اس کو ڈرا رہا ہوں ، ہاں لکھتے وقت بھی سینڈ کرتے وقت بھی ان شاءاللہ کہا، کیا حکم ہے ؟ طلاق واقع ہوئی یا نہیں،اسی طرح ایک دن پہلے میں اس کو بغیر نیت طلاق کے جدائی کا احساس دلا رہا تھااور اس سے پوچھا کیا تم بچے مجھے دے دو گی؟تو بیوی نے کہا کہ مطلب؟ فیصلہ کر چکے ہیں آپ؟میں نے کہا  کہ نہیں،  آپ کے ابو نے کیا ہےاور آپ دونوں کی خوشی میں اس بار آپ کے ساتھ ہوں(طلاق کی نیت نہیں)، پھر اس نے پوچھا  کہ مطلب آپ نےفیصلہ کر لیا؟ میں نے جواب لکھا کہ ظاہر ہے،  کب تک زبردستی مسلط  رہوں، طلاق کی نیت نہیں تھی اور اہلیہ کے جواب میں لکھا کہ ہاں اس بار بھی زبان سے کہا کہ میری طلاق کی نیت نہیں اور اگر اس کی ہے تو میں ان شاءاللہ کی ادائیگی کے ساتھ  "ہاں" والا میسج بھیج رہا ہوں، کیا طلاق ہوئی یا نہیں؟ آپ اور آپ کےوالد کی خواہش ہر بار رد کرنا مناسب نہیں،(نوٹ :کیوں کہ اہلیہ کئی بار مجھ سے طلاق کا مطالبہ کر چکی اور ان کے والد بھی بیٹی کی میرے بارے میں غلط شکایت کے بعد کہہ چکے ہیں کہ بیٹھ کر فیصلہ کر لو،میرے نزدیک ان کامطلب طلاق لینا ہوتا ہے،  ان کی نیت  مجھے نہیں معلوم ، البتہ اہلیہ نے وضاحت کی ہے کہ والد کا فیصلہ کا مطلب تنازع کا حل ہوتا ہے)

وضاحت: اس موقع پر بھی مجھے اہلیہ کی نیت معلوم نہیں تھی اور بعد میں اس نے لکھا بھی  کہ  مجھے نہیں چاہیے طلاق۔

سوال یہ ہے کہ اس کے ہر بار پوچھنے پر میرے الفاظ ہاں  ظاہر ہے کب تک اور آپ کی خوشی میں اس بار میں ساتھ ہوں، جب کہ میرے نزدیک ان کی خوشی اور خواہش طلاق لینے میں ہے تو ان الفاظ کے ساتھ طلاق یا طلاقیں واقع ہو گئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں جب سائل نے طلاق کی نیت کے بغیر اپنی بیوی سے یہ کہا کہ : " والد سے کہہ دو میں یہ بار گراں نہیں اٹھا سکتا" تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی،اسی طرح جب بیوی نے پوچھا مطلب؟ آپ طلاق دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟ اور سائل نے کہا كه ہاں اور  زبان سے کہا کہ ایسا نہیں ،اس کو ڈرا رہا ہوں  تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی، پھر جب  سائل نے بیوی سے پوچھا کیا تم بچے مجھے دے دو گی؟بیوی نے کہا کہ مطلب؟ فیصلہ کر چکے ہیں آپ؟اور سائل نے کہا  کہ نہیں،  آپ کے ابو نے کیا ہےاور آپ دونوں کی خوشی میں اس بار آپ کے ساتھ ہوں پھر  جب بیوی نے پوچھا  کہ مطلب آپ نےفیصلہ کر لیا؟ سائل نے جواب لکھا کہ ظاہر ہے،  کب تک زبردستی مسلط  رہوں تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ مکالمہ سے کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی، نکاح بدستور برقرار ہے۔

فتاوی شامیمیں ہے:

"(ما لم يوضع له)  أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة  (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما، مجتبى.....

(قوله: والكنايات ثلاثة إلخ) حاصله أنها كلها تصلح للجواب: أي إجابته لها في سؤالها الطلاق منه، لكن منها قسم يحتمل الرد أيضا: أي عدم إجابة سؤالها، كأنه قال لها لا تطلبي الطلاق فإني لا أفعله وقسم يحتمل السب والشتم لها دون الرد، وقسم لا يحتمل الرد ولا السب بل يتمحض للجواب كما يعلم من القهستاني وابن الكمال، ولذا عبر بلفظ يحتمل وفي أبي السعود عن الحموي أن الاحتمال إنما يكون بين شيئين يصدق بهما اللفظ الواحد معا، ومن ثم لا يقال يحتمل كذا أو كذا كما نبه عليه العصام في شرح التلخيص من بحث المسند إليه."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:300/301/302، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں