بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کنواری لڑکی کا نکاح کی اجازت کے وقت رونا


سوال

 ایک کنواری لڑکی کی شادی کی بات ایک جگہ اس کی رضا اور خوشی سے طے کی گئی،  بچی کے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں اور دادا بھی حیات نہیں ، جبکہ چچا ملک سے باہر ہیں،  نکاح سے پہلے بچی کے بڑے بھائی اپنے ایک دوسرے بھائی اور بہنوئی کے ہمراہ بچی سے اجازت لینے گئے،  چونکہ بچی اس وقت شادی  کے لیے تیار ہو رہی تھی،  اس لیے پردے کے پیچھے سے ولی نے اجازت لی کہ آپ کا نکاح فلاں بن فلاں سے اتنے اتنے مہر کے عوض کر رہے ہیں،  کیا آپ کو منظور ہے؟  بچی نے پردے کے پیچھے سے سنا مگر زبان سے جواب نہ دے پائی ۔ بعد ازاں بچی کے اسی بہنوئی نے نکاح کی تقریب میں مسجد میں بچی کے ولی سے بچی کے نکاح کی اجازت لی اور پھر خطبہ نکاح کے بعد دو اور موجود گواہوں کا نام لےکرلڑکے سے پوچھا کہ میں آپ کا نکاح فلاں بنت فلاں سے اتنے مہر کے عوض کرتا ہوں ، کیا آپ کو قبول ہے؟  بچے نے جواب دیا کہ جی مجھے قبول ہے۔ نکاح کے بعد رات کو بچی سے پوچھنے سے معلوم ہوا کہ وہ ولی سے پوچھنے کے وقت رو پڑی تھی اور زبان سے ہاں نہیں کہ سکی تھی،  مگر بقول اس کہ وہ دل سے راضی تھی،  سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں کیا نکاح منعقد ہو گیا؟

جواب

واضح رہے کہ کنواری لڑکی اگر ولی کے اجازت لینے کے وقت بے آواز رو پڑ جائے  اور کچھ نہ کہے،تو وہ اس کی طرف سےشرعاً  اجازت سمجھی جاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  نکاح منعقد ہوچکا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو ‌بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن)

(قوله أو ‌بكت بلا صوت) هو المختار للفتوى لأنه حزن على مفارقة أهلها."

(کتاب النکاح، باب الولی، ج:3، ص:59، ط:سعید)

الفقه الاسلامی و ادلته میں ہے:

صيغة الفعل: قد تكون صيغة الإيجاب والقبول بلفظ الماضي أو بلفظ المضارع أو بلفظ الأمر، واتفق الفقهاء على انعقاد الزواج بصيغة الماضي، واختلفوا في المضارع والأمر.

أ ينعقد الزواج بصيغة الفعل الماضي: كأن يقول ولي المرأة للرجل: زوجتك ابنتي فلانة على مهر كذا، فقال الزوج: قبلت أورضيت؛ لأن المقصود بهذه الصيغة إنشاء العقد في الحال، فينعقد بها العقد من غير توقف على نية أو قرينة.

ب وأما العقد بصيغة المضارع: مثل أن يقول الرجل للمرأة في مجلس العقد: أتزوجك على مهر قدره كذا، فقالت: أقبل أو أرضى، صح العقد عند الحنفية والمالكية إذا كانت هناك قرينة تدل على إرادة إنشاء العقد في الحال، لا للوعد في المستقبل، كأن يكون المجلس مهيئاً لإجراء عقد الزواج، فوجود هذه الهيئة ينفي إرادة الوعد أو المساومة، ويدل على إرادة التنجيز؛ لأن الزواج بعكس البيع يكون مسبوقاً بالخطبة.

فإن لم يكن المجلس مهيئاً لإنجاز العقد، ولم توجد قرينة دالة على قصد إنشاء الزواج في الحال، فلا ينعقد العقد.

ولا ينعقد الزواج عند الشافعية والحنابلة بصيغة المضارع، وإنما لا بد عندهم من لفظ بصيغة الماضي مشتق من النكاح أوالزواج، بأن يقول الزوج: تزوجت أو نكحت أو قبلت نكاحها أو تزويجها، ولا يصح بكناية: كأحللتك ابنتي، إذ لااطلاع للشهود على النية. ولو قال ولي المرأة: زوجتك، فقال الزوج: قبلت، لم ينعقد الزواج لدى الشافعية على المذهب، وينعقد عند الجمهور غير الشافعية.

ج ويصح العقد عند الحنفية والمالكية بصيغة الأمر: كأن يقول الرجل لامرأة: زوجيني نفسك، وقصد بذلك إنشاء الزواج، لا الخطوبة، فقالت المرأة: زوجتك نفسي، تم الزواج بينهما.

وتوجيه ذلك عند الحنفية: أن قول الرجل يتضمن توكيل المرأة في أن تزوجه بنفسها، فقولها: زوجتك نفسي، قام مقام الإيجاب والقبول. والتوجيه عند المالكية أن صيغة الأمر تعتبر إيجاباً للعقد عرفاً، ولا تعتبر توكيلاً ضمنياً. وهذا القول أوجه. وعبارة المالكية: ينعقد النكاح بالإيجاب والاستيجاب، أي طلب الإيجاب.

 (ج:9، ص: 6527، ط: دار الفکر)

خیر الفتاوی میں ہے:

"ایک نکاح خوان نے دو آدمیوں کے درمیان نکاح کیا اور لڑکے کو یوں کہا کہ میں تیرا نکاح فلاں بنت فلاں سے کرتا ہوں کیا تجھے منظور ہے تو لڑکے نے کہا ہاں، پھر اس نے لڑکی سے یوں کہا کہ میں تیرا نکاح فلاں بن فلاں سے کرتا ہوں کیا تجھے منظور ہے تو لڑکی نے کہا ہاں، یعنی نکاح میں زمانہ حال کے الفاظ استعمال کیے زمانہ ماضی کے الفاظ استعمال نہیں کیے، کیا اس سے نکاح ہو جاتا ہے؟ یہ گفتگو نکاح کی تھی منگنی کی نہیں تھی باقاعدہ نکاح ہوا تھا، مہر کا بھی اس میں ذکر کیا گیا تھا۔

 صورتِ مسئولہ میں نکاح خواں کے الفاظ ایجاب ہیں اور لڑکے اور لڑکی کا 'ہاں' کہنا بمنزلہ 'قبلت' ہے، لہذا نکاح منعقد ہو گیا۔"

(ج:4، ص:309، ط:امدادیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں