بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کانٹے اور کنڈی کے ذریعے مچھلی کا شکار کرنا


سوال

مچھلی کو جال ڈال کر پکڑنا تو صحیح ہے، لیکن جو طریقہ کنڈی /کانٹے پر کھانا لگاکر ڈالا جاتا ہے اور جب مچھلی کھانا /رزق دیکھ کر کھاتی ہے کانٹا اس کے حلق میں پھنس جاتا ہے، کیا یہ طریقہ صحیح ہے، رزق کی لالچ دے کر تکلیف دے طریقہ سے شکار کرنا کیا جائز ہے؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے   چوپائے، پرندے اور سمندری جانور اور کائنات کی دیگر چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں اور ان میں سے بعض کا کھانا حلال کیا ہے اور بعض کا کھانا حرام کیا ہے، مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، اس لیے ان کا کسی بھی جائز غرض کے لیے  شکار کرنا جائز ہے، شکار کا جائز ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، البتہ محض شوقیہ، لہو لعب کے لیے یا بے مقصد شکار کرکے جانور کو مارنا  جائز نہیں ہے۔

نیز شریعت میں شکار کا  کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، اگر  معروف طریقہ سے شکار کیا جائے اور اس سے جانور کو تکلیف بھی پہنچ جائے تو  اس  کی گنجائش ہوگی، جیسے تیر کے ذریعے شکار کرنے یا کتے یا باز کے ذریعے شکار کرنے  میں  بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن اس کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ نصوص میں اس کی اجازت اور احکام موجود ہیں، البتہ جب معاملہ اختیاری ہو تو   ایسے طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔

نیز ہر مچھلی کو جال کے ذریعے شکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہر جگہ جال کا طریقہ قابلِ عمل ہوتا ہے، لہذا مچھلی کو کانٹے اور کنڈی کے ذریعے شکار کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( هو مباح ) بخمسة عشر شرطاً مبسوطة في العناية، وسنقرره في أثناء المسائل ( إلا ) لمحرم في غير المحرم أو ( للتلهي ) كما هو ظاهر (أو حرفةً) على ما في الأشباه.

قال المصنف: وإنما زدته تبعاً له، وإلا فالتحقيق عندي إباحة اتخاذه حرفةً؛ لأنه نوع من الاكتساب، وكل أنواع الكسب في الإباحة سواء على المذهب الصحيح، كما في البزازية وغيرها". (27/234)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"( كتاب الصيد ) قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي رحمه الله إملاءً: اعلم بأن الاصطياد مباح في الكتاب والسنة، أما الكتاب فقوله تعالى: {وإذا حللتم فاصطادوا} وأدنى درجات صفة الأمر الإباحة، وقال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} الآية، والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: {الصيد لمن أخذه}، فعلى هذا بيان أن الاصطياد مباح مشروع؛ لأن الملك حكم مشروع فسببه يكون مشروعاً، وهو نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك فكان مباحاً، ويستوي إن كان الصيد مأكول اللحم أو غير مأكول اللحم لما في اصطياده من تحصيل المنفعة بجلده أو دفع أذاه عن الناس". (11/398)

فتح الباری میں ہے:

"(قوله: باب كل لهو باطل ) إذا شغله أي شغل اللاهي به عن طاعة الله أي كمن النهي بشيء من الأشياء مطلقاً سواء كان مأذوناً في فعله أو منهياً عنه كمن اشتغل بصلاة نافلة أو بتلاوة أو ذكر أو تفكر في معاني القرآن مثلاً حتى خرج وقت الصلاة المفروضة عمداً فإنه يدخل تحت هذا الضابط، وإذا كان هذا في الأشياء المرغب فيها المطلوب فعلها فكيف حال ما دونها". (11/91ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201200215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں