بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کانوں کی لو سے اوپر اورکان کے سامنےداڑھی کے بکھرے ہوئے بالوں کو تراشنے کا حکم


سوال

 کیا کانوں کی لو سے اوپر اورکان کےسامنےداڑھی کےبکھرے ہوئے بالوں کوتراش کراس طرح برابرکیاجاسکتاہےکہ داڑھی اورکانوں میں کچھ فاصلہ رہے اوربال کانوں میں نہ جائیں؟

جواب

 کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا  ہےاور یہ پورا جبڑا داڑھی کی حد ہےاور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال ہوں تو ایک مشت کی حد تک اس کو کاٹ سکتے ہیں،اسی طرح   ٹھوڑی اور جبڑے کے علاوہ رخسار اور گردن کے بالوں کو صاف کرنا اور خط بنوانا جائز ہے، لہٰذا کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے اس سے اوپر جو بال ہوں ان کو تو کاٹنا جائز ہے، لیکن جبڑے کی ہڈی سے نیچے جو بال ہوں وہ اگر ایک مشت کی مقدار سے زیادہ بڑھ جائیں تو ان کو تراش کر ایک مشت کے برابر کرنا تو جائز ہے، لیکن ایک مشت یا اس سے کم ہونے کی صورت میں ان بالوں کو کاٹنا جائز نہیں ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه و آله و سلم قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ".

(بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

ترجمہ:  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (16/ 104):

''حدثنا عبد الله بن رجاء حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن وهب أبي جحيفة السوائي قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ورأيت بياضاً من تحت شفته السفلى العنفقة ... قوله: (العنفقة) ، بالجر على أنه بدل من: الشفة، ويجوز بالنصب على أن يكون بدلاً من قوله: (بياضاً) . قال ابن سيده في (المخصص) : هي ما بين الذقن وطرف الشفة السفلى، كأن عليها شعر أو لم يكن، وقيل: هو ما كان نبت على الشفة السفلى من الشعر، وقال القزاز: هي تلك الهمزة التي بين الشفة السفلى والذقن، وقال الخليل: هي الشعيرات بينهما، ولذلك يقولون في التحلية: نقي العنفقة، وقال أبو بكر: العنفقة خفة الشيء وقلته، ومنه اشتقاق: العنفقة، فدل هذا على أن العنفقة الشعر، وأنه سمي بذلك لقلته وخفته، وفي هذا الحديث بين موضع البياض والشمط ... واللحية تشمل العنفقة وغيرها''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں