اگر کوئی بچہ پیدا ہونے کے بعدکان میں اذان اور اقامت دینے سے پہلے انتقال کرجائے، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یابغیر جنازے کے دفنا دیا جائے گا؟
واضح رہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد اگراس میں زندگی کی کوئی علامت(مثلاً آواز نکالنا، رونا، یا کسی عضو کا حرکت کرناوغیرہ) پائی جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ اس کے کان میں اذان و اقامت نہ دی گئی ہو اور اگر پیدا ہونے کے بعد اس میں زندگی کی کوئی علامت نہ پائی جائے اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومن ولد فمات يغسل ويصلى عليه) ويرث ويورث ويسمى (إن استهل) بالبناء للفاعل: أي وجد منه ما يدل على حياته بعد خروج أكثره، حتى لو خرج رأسه فقط وهو يصيح فذبحه رجل فعليه الغرة، وإن قطع أذنه فخرج حيا فمات فعليه الدية (وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني وهو الأصح فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراما لبني آدم كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه)."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:227،228 ، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101132
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن