بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کم زوری کی وجہ سے کفارے کے روزوں کے بدلہ کھانا کھلانے کا حکم


سوال

روزے کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل ساٹھ دن کے روزے رکھے اور اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، مجھے روزے رکھنے سے بے حد کمزوری محسوس ہوتی ہے، اور روزہ رکھ لینے کے بعد میں کوئی دوسرا کم نہیں کر پاتا پورے دن کام کی چھٹی رکھنی پڑتی ہے، تو کیا میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر کفارہ ادا کرسکتا ہوں؟

جواب

جس شخص میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو اور روزہ رکھنے سے سخت بیمار ہوجانے یا موجودہ بیماری کے بڑھ جانے یا دیر سے صحیح ہونے کا غالب گمان نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے کفارے کے ساٹھ روزے مسلسل رکھنا ہی ضروری ہے، روزہ رکھنے سے صرف کمزوری ہوجانے کی وجہ سے روزے چھوڑنے اور 60 مسکینوں کو کھانا کھلانے  کی اجازت نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب تک کفارے کے ساٹھ روزے مسلسل نہ رکھیں گے کفارہ ادا نہیں ہوگا، اگر موت تک صرف کم زوری کی وجہ سے کفارے کے روزے نہیں رکھے تو  مرنے  سے پہلے  ہر روزہ کے بدلہ ایک صدقہ فطر کی مقدار فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا ضروری ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

روزے کا کفارہ اور فدیہ

فدیہ کی مقدار کیا ہے؟

حوالہ جات:

البحر الرائق شرح كنز الدقائق(ج:4، ص:116، ط:دار الكتاب الإسلامي):

’’(قوله: فإن لم يستطع الصوم أطعم ستين فقيرًا كالفطرة أو قيمته) أي: إن لم يقدر على الصوم لمرض لايرجى برؤه أو كبر.‘‘

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (ج:1، ص:248، ط:دار إحياء التراث العربي):

’’فصل في بيان وجوه الأعذار المبيحة للإفطار وما يتعلق بها: ولما اختلف الحكم بالعذر فلا بد من معرفة الأعذار المسقطة للإثم؛ فلذا ذكرها في فصل على حدة (يباح الفطر لمريض خاف) بالاجتهاد أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق وقيل: عدالته شرط، والمراد بالخوف غلبة الظن (زيادة) منصوب لنزع الخافض (مرضه) الكائن أو امتداده أو وجع العين أو جراحة أو صداع أو غيره ويدخل فيه خوف عود المرض ونقصان العقل، والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض، كما في التبيين، والأمة التي تخدم إذا خافت الضعف جاز أن تفطر ثم تقضي ولها أن تمتنع من الائتمار بأمر المولى إذا كان يعجزها عن أداء الفرض، والعبد كالأمة، ومن له نوبة حمى فأفطر مخافة الضعف عند إصابة الحمى فلا بأس به لأن الغالب كالكائن، وقال نجم الأئمة: من اشتد مرضه كره صومه. وفي شرح المجمع: لو برئ من المرض ولكنه ضعيف لا يفطر؛ لأن المبيح هو المرض لا الضعف وكذا لو خاف من المرض، ففيه مخالفة لما في التبيين ووفق صاحب البحر بأن يراد بالخوف في كلام شرح المجمع مجرد الوهم.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:207، ط:دار الفكر):

’’(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق، كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض، هكذا في التبيين. ولو كان له نوبة الحمى فأكل قبل أن تظهر الحمى لا بأس به، كذا في فتح القدير. ومن كان له حمى غب فلما كان اليوم المعتاد أفطر على توهم أن الحمى تعاوده وتضعفه فأخلفت الحمى تلزمه الكفارة، كذا في الخلاصة.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203201039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں