بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن ایجنٹ کی اجرت کا متعین کرنا ضروری ہے


سوال

میرے پاس ایک کار ہے میں نے ایک شخص سے کہا کہ یہ گاڑی بیچنی ہے اور مجھے 20000 دےدینا باقی اوپر کی رقم آپکی،  اب اس بیچ والے شخص نے تیسرے سے کہا کہ ایک گاڑی ہے اس کی قیمت 50000 ہے اس تیسرے نے گاڑی 50000 میں خریدلی اور اب بیچ والے آدمی نے 20000 پہلے شخص کو دے دیے اور باقی قیمت اپنے پاس رکھ لی کیا یہ قیمت اس بیچ والے آدمی کے لیۓ جائز ہے اور کیا اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے ۔کسی کا موبائل کسی کا مکان وغیرہ زیادہ قیمت پر بتا کر باقی قیمت اپنے پاس رکھ لینا ۔

جواب

صورت مسئولہ میں بائع کے پاس ایک گاڑی ہے جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے، وہ ایک دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ  مری گاڑی فروخت کر دیں اور قیمت میں سے بیس ہزار مجھے دے دیں اور باقی اوپر جتنی رقم ملے وہ آپ رکھ لیں، وہ دوسرا آدمی گاڑی بیس ہزار کے بجائے پچاس ہزار میں فروخت کرتا ہے اور بیس ہزار بائع کو دے دیتا ہے اور باقی خود رکھ لیتا ہے، تو اس دوسرے آدمی  کے لیے زائد رقم  لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ گاڑی  پچاس ہزار میں فروخت ہوئی ہے، اور وہ کل کا کل گاڑی کا بدل ہے، اور گاڑی  بائع کی ملکیت تھی تو  گاڑی کے کل بدل (یعنی: کل رقم) کا مالک بھی وہی ہے۔ کیونکہ اجرت متعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہے تو مشتری کو اجرت مثل ملے گی۔ اور گاڑی کی ساری کی ساری قیمت مالک کو ملے گی۔

لہذ ا مذکورہ طریقہ پر گاڑی، یا کسی بھی قسم کے تجارتی معاملات کرنا درست نہیں ہے۔

شرح المجلہ میں ہے: 

"لو أعطى أحد ماله للدلال وقال به بكذا دراهم، فإن باعه بأزيد من ذلك فالفاضل أيضاً لصاحب المال، وليس للدلال سوى الأجرة، أجرة المثل بالغة ما بلغت لو لم يكن سمى له أجرة ولا تزيد على المسمى لفساد الإجارة من كل وجه، بقي ما لو قال للدلال بعه بعشرة وما زاد فهو لك أجرة ، والظاهر أنه لا أجر له أصلاً، لو باعه بعشرة  أو لم يبع؛ لأنه لم يحعل له أجرة على ذلك، ولو باعه بزيادة فله أجر مثله لا يزيد على تلك الزيادة". 

(شرح المجلة للاتاسي، ج: 2، صفحة: 677، رقم المادة: 578)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". 

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں