بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص مجھ سے کوئی  چیز یا سامان منگوا رہا ہے تو  کیا میں کچھ کمیشن رکھ  سکتا ہوں،  جیسے میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ  مجھے کچھ کتابیں چاہییں، تو  تم جہاں جاب کرتے ہو وہاں سے  قریب بک شاپ ہے  مجھے وہاں کتابیں لا دو، اور میں اپنے پیسوں سے خرید کر وہ کتا بیں لایا، کیا میں   اس میں کچھ منافع یا کمیشن رکھ سکتا ہوں؟ دوست کو بتاۓ بغیر، جیسے کتاب کی قیمت 500 ہے تو وہ کتاب میں اس کو 550 میں دے دوں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں   سائل  کے  لیے اپنے ساتھی کے علم میں لائے بغیر مذکورہ صورت میں کمیشن لینا درست نہیں ہے۔  البتہ اگر  معاملہ کرنے سے پہلے یہ  طے کر لیا جاتا کہ میں آپ کے لیے کتابیں لاؤں گا اور اس پر  میں اتنا کمیش (مثلاً فی کتاب  پچاس روپے) لوں گا تو درست ہو جاتا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه".

(کتاب الاجارۃ، ج: 6، صفحہ: 63 ، ط: ایچ، ایم، سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں