بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کمپنی میں صرف چار ماہ کام کیا اس میں میرا حصہ ہے یہ نہیں؟


سوال

میرے تین بھائی میرےوالد کی نیابت میں    دادا کے ساتھ ان کے کاروبار میں کام کرتے تھے، پھر کچھ تنازعہ ہوا تو میرے بھائی لوگ ان سے الگ ہوگئے اور کچھ نقدی، ایک فلیٹ اور گاڑی بھی لے لی، یہ اس کاروبار میں میرے والد کا  کا حصہ تھا ا، پھر تینوں بھائیوں، بلکہ میں نے بھی کچھ عرصہ مشترکہ کاروبار کرکے ایک ٹھیکداری کی کمپنی بنائی ، اس کے بعد دیگر بھائیوں نے مجھے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ مدرسہ پڑھو،  آپ کا سب کچھ مجھ پر ہے، تو میں نے پڑھائی شروع کردی ، مدرسہ کا فاضل بنا، اور تیسرا  غیر شادی شدہ بھائی وفات پا گیا، میری فراغت کے بعد بھا ئیوں نے میری نگرانی میں مسجد اور مدرسہ تعمیر کرایا، ہمارا گھر تعمیر ہوا، جسے میں دیکھتا تھا اور وہ پیسے دیتے تھے، اب ایک بڑا کاروبار  بن چکا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اس کاروبار میں بھائیوں میں سے کس کس کا حصہ ہے؟   میرا حصہ ہے یا نہیں؟  میں نے کچھ عرصہ ان کے ساتھ کام بھی کیا لیکن ان کے اصرار پر  مدرسہ سے پڑھا، اور بھائی وفات ہوا، وہ بھی اس کاروبار میں پارٹنر تھا، اس کے حصے کیا بنے گا؟

ہم ٹوٹل چار بھائی ہیں ، تین مستقل طور پر شریک تھے اور میں تو  مدرسہ میں پڑ گیا تھا۰

اور میرے دادا کے وفات کی بعد میرے والد کو حصہ ملا، جس میں زمین ، نقدی اور کاروبار ہے، میرے والدین حیات ہیں، ہم اب بھی شریک ہیں،  اور مشترکہ گھر داری ہے، یہاں تک کہ بھائیوں کا  جو الگ کاروبار ہے، اس کی چوکیداری ، مینٹیننس وغیرہ کے اخراجات میں کچھ میرے والد کو  دادا  سے   ملنے والے حصہ ادا کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ دو بھائی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارا ہے، یعنی ٹھیکداری کے کاروبار  سے یا اس سے جو ہم نے ابتداء  بنائی وہ ہمارا ہے،  کیاوہ انہیں کا ہے؟

اس میں میرا اور میرا فوت شدہ بھائی کا حصہ نہیں ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃ سائل کے بھائی اپنے مرحوم دادا  کے ساتھ اپنے والد کے نائب بن کر کام کر رہے تھے تو دادا کے کاروبار سے علیحدگی کے  بعد جو رقم اور جائیداد ملی ہے وہ والد کا حق ہے  ، نہ کہ سائل  اور اس کے بھائیوں کاحق ہے،  لہذا مذکورہ کمپنی  اور اس کمپنی سے ملنے والے مال  ومنافع کے حق دار والد ہیں  ، البتہ والد اگر چاہے تواپنی زندگی میں اپنے جائیداد  کو اولاد کے درمیان تقسیم کر سکتے ہی،   زندگی میں تقسیم کی جانے والی جائیداد ہبہ ہے، وراثت نہیں ہے،اگر سائل زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو شرعاً اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اولاً تو اپنی ضرورت کے لیے اتنا حصہ اپنے پاس رکھیں کہ بوقتِ ضرورت آپ کے کام آئے اور آپ کو کسی کی محتاجی نہ ہو، پھر اپنی بقیہ جائیداد اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابر ،برابر تقسیم کردیں، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دیں، کیوں کہ ہبہ (تحفہ) کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کی ہدایت یہ ہے کہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری رکھی جائے، ورنہ بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم".

(حاشية ابن عابدين، کتاب الوقف، 4 \444، ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں