بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اضافی وقت کی اجرت کمپنی کو بتائے بغیر کسی اور مد میں وصول کرنے کا حکم


سوال

میر ایک عزیز دوبئی میں ایک کمپنی میں ملازم ہے جو کہ ڈرائیور ہے، اور اس کا کام دیگر ملازمین کو کمپنی کی طرف سے بتائے ہوئے مقام پر لے جانا اور یومیہ کام مکمل کرنے کی صورت میں ملازمین کو واپس اپنی جگہ تک پہنچانا ہے، کمپنی نے ملازمت دیتے وقت یہ ایگریمنٹ اور وعدہ کیا تھا کہ آپ کو گیارہ گھنٹے کام کرنے کی تنخواہ دی جائے گی، چاہے کام گیارہ گھنٹے کا ہو یا اس سے کم، البتہ گیارہ گھنٹوں سے کام زائد ہونے کی صورت میں زائد وقت آپ کا اور ٹائم شمار ہوگا،جس کے بدلے آپ کو اضافی رقم اور اجرت دی جائے گی،شروع میں معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور کمپنی گیارہ گھنٹوں سے زائد کام کرنے کی صورت میں اضافی رقم دیتی رہی،اب ایک عرصے سے کمپنی کی طرف سے صرف گیارہ گھنٹوں کی اجرت ملتی ہے چاہے کام گیارہ گھنٹوں سے کم ہو یا زیادہ۔

درج بالا تفصیل کے بعد دو امور دریافت طلب ہیں:

(1):مذکورہ شخص کمپنی کا اجیر خاص تصور کیا جائے گا یا اجیر مشترک؟

(2):چوں کہ شروع میں کمپنی کے ساتھ یہ ایگریمنٹ ہوا تھا کہ گیارہ گھنٹوں سے زائد کام ہونے کی صورت میں اضافی وقت اوورٹائم شمار ہوگا اور اس کی الگ سے اضافی رقم اور اجرت دی جائے گی،لیکن چوں کہ اب ایک عرصے سے کمپنی مذکورہ رقم نہیں دیتی ،تو کیا گیارہ گھنٹوں سے زائد کام کرنے کی صورت میں زائد مدت کے بدلے اضافی رقم اور اجرت شرعاً اس کا حق بنتا ہے یا نہیں؟اگر حق بنتا ہے تو کیا کمپنی کو بتائے بغیر اپنے حق کے بقدر اپنے حق کے جنس کے علاوہ سے (مثلاً کمپنی کے پٹرول وغیرہ بیچ کر)اپنا حق وصول کر سکتا ہے یا نہیں؟

نوٹ:یاد رہے کہ یومیہ کام مکمل کرکے ہی جائے ملازمت سے واپس جا سکتے ہیں انہیں اختیار نہیں کہ صرف گیارہ گھنٹے کام کر کے واپس چلے جائے۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے کمپنی کے ساتھ ایک مخصوص وقت یعنی گیارہ گھنٹے کام کرنے کا ایگریمنٹ لکھا ہے، تو مذکورہ شخص کی حیثیت کمپنی کے لیے اجیرِ خاص کی ہے،جس میں وہ کمپنی کے لیے طے شدہ وقت تک کام کرنے کا پابند ہے۔

2: مذکورہ شخص کمپنی کے لیے چوں کہ اجیرِ خاص ہے، لہذا اپنے مقررشدہ وقت سے اضافی وقت میں کام کرنے سے اضافی وقت کے اجرت کا مستحق بھی ہے(جیسے کہ ایگریمنٹ میں بھی یہ درج ہے) اگر کمپنی مذکورہ اضافی وقت کی اجرت نہیں دیتی تو ان کو ایگریمنٹ سے متعلق یاد دہانی کرواکےجائز طریقے سےاضافی وقت کے اجرت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے، تاہم کمپنی کو بتائے بغیر کسی اور مد میں اپنے اضافی وقت کی اجرت وصول کرنے کا سوال میں ذکرکردہ طریقہ درست نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"قال رَحِمَهُ اللَّهُ: ( وَالْخَاصُّ يَسْتَحِقُّ الْأَجْرَ بِتَسْلِيمِ نَفْسِهِ في الْمُدَّةِ وَإِنْ لم يَعْمَلْ كَمَنْ اُسْتُؤْجِرَ شَهْرًا لِلْخِدْمَةِ أو لِرَعْيِ الْغَنَمِ ) يَعْنِي الْأَجِيرَ الْخَاصَّ يَسْتَحِقُّ الْأَجْرَ بِتَسْلِيمِ نَفْسِهِ في الْمُدَّةِ عَمِلَ أو لم يَعْمَلْ."

(باب الإجارة، ج:8، ص:51، ط:مكتبه رشيديه)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«ألا لاتظلموا، ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه». رواه البيهقي في "شعب الإيمان"، و الدارقطني في "المجتبى.

(" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ". 

(باب الغصب والعاریة، ج:5، ص:1974، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں