بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں ملازمت اختیار کرنے کے لیے داڑھی کٹوانے کا حکم


سوال

 داڑھی رکھنا سنت رسول ﷺ ہے۔کیا کسی حافظ یا عالم کو داڑھی رکھنا ضروری ہے ؟ قرآن یا کسی حدیث کی روشنی میں جواب ارسال فرمائیں !خلاصہ  یہ کہ میں ایک کمپنی میں کام کرنا چاہتا ہوں اس کمپنی کا  قانون  یہ ہے کہ داڑھی والے شخص کو کام پر نہیں رکھتے؛ کیونکہ داڑھی سے کچھ یعنی چند نقصانات ہیں تو اس صورت میں داڑھی رکھنا یا نہ رکھنا کیسا ہے ؟

جواب

جی ہاں داڑھی رکھنا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور تمام انبیا ء علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت ہے،  اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم بھی فرمایاہے فقہاء کی تصریح کے مطابق نہ صرف  حافظ ،عالم بل کہ  ہر مسلمان  مردکے لیے کم از کم ایک مشت  داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے، داڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کترواناحرام ہےاور اس کا مرتکب فاسق ہے۔

 کمپنی میں ملازمت کے لیے داڑھی  کٹوانا جائز نہیں ،بل کہ کوئی اور جائز ذریعہ معاش تلاش کرنا چاہیے، نیز داڑھی رکھنے میں دنیا وآخرت کا فائدہ ہے ،نقصان کوئی نہیں،بلکہ داڑھی نہ رکھنے میں دنیا وآخرت کا نقصان ہے  اگر بالفرض اس کمپنی میں کوئی ملازمت نہ ملے تو اس کے علاوہ حلال روزگار کے بہت سے مواقع ہیں، اللہ پر یقین اور توکل رکھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیے اور حلال روزی کی تلاش جاری رکھیے، ان شاء اللہ ضرور حاجت برآری ہوگی، بسااوقات اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتے ہیں، اور آزمائش میں پورا اترنے پر بے حد نوازتے بھی ہیں، لہٰذا آپ کسی صورت خلافِ شرع کسی بات کا تصور بھی نہ کیجیے، پنج وقتہ نمازوں کی باجماعت پابندی کے ساتھ استغفار، درود شریف اور ’’یا وَدُوْدُ‘‘ کثرت سے پڑھیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن نافع، عن ابن عمر،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا ‌المشركين: ‌وفروا ‌اللحى، ‌وأحفوا ‌الشوارب. وكان ابن عمر: إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه".

(کتاب اللباس ،باب تقلیم الاظفار،ج:5،ص:2209،ط:دار ابن کثیر)

فتح القدیر  میں ہے :

"يحمل الإعفاء على إعفائها من أن يأخذ غالبها أو كلها، كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم كما يشاهد في الهنود وبعض أجناس الفرنج، فيقع بذلك الجمع بين الروايات، ويؤيد إرادة هذا ما في مسلم عن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي - عليه الصلاة والسلام -: «جزوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل. وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد".

(کتاب الصوم ،باب ما يوجب القضاء والكفارة،  ج: 3 ،ص: 348،ط :دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں