میں ایک کمپنی میں جاب کرتا ہوں وہ کمپنی کچھ پیسے میرے کاٹتی ہے اور کچھ اپنے پاس سے ڈالتی ہے مطلب 2 ہزار میرے کاٹ لیے 2 ہزار اپنے پاس سے دیے ، اور کمپنی سال کے بعد ہمیں وہ ایک ساتھ 4 ہزار کے حساب سے دے دیتی ہےتو کیا ایسی صورت میں یہ پیسے سود میں تو نہیں آتے؟
صورتِ مسؤلہ میں اگر سائل کی کمپنی سائل کی تنخواہ سے دوہزار روپے کاٹ کر دوہزار اپنی طرف سے شامل کرتی ہے ،اور سال کے اختتام پر یہ ساری رقم یک مشت سائل کو دے دیتی ہے، تو سائل کے لیے اس رقم کو لینا شرعاً جائز ہے ،یہ رقم سود میں نہیں آتی،اِس رقم کو کمپنی کی طرف سے عطیہ شمار کیاجائےگا۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".
(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310101395
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن