بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن پرمال فروخت کرنے پرکسی کو وکیل بنانا


سوال

میرے بھائی نے مجھے ایک کنٹینر مال دیا تھا کہ اس پر میں آپ کو 2لاکھ روپےکمیشن دوں گا یعنی اس کے بیچنےپر تو میں اس کو بیچ رہا تھا، کسی کو ادھار پر کچھ مال دیا اور اس نے اس مال کا پیسہ کھالیا یا نقصان ہوا، خلاصہ یہ ہے کہ وہ  مجھے پیسہ نہیں دے رہا ہے،میں نے اس کو جیل میں بھی بند کرایا،اس سے مجھے کچھ پیسہ نہیں ملا ،اس میں میرے سے بھی کچھ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے غفلت ہوئی ہے جو میں نے ایسے بندے کو ادھار دیا ،اب میرا بھائی کہہ رہا ہے کہ جو رقم نہیں مل رہی ہے اس میں آپ میرے ساتھ شریک ہو یعنی آدھا نقصان آپ پر ہوگا اور آدھا مجھ پر ،کیا شرعی طور پر میرے اوپر یعنی میں کمیشن کار کے اوپر نقصان ہوگا کہ نہیں میرےتجربہ نہ ہونے اور غفلت کی وجہ سے؟میں نہ اس مال میں اس کے ساتھ تھا، نہ اس سے مضاربت پر لیا تھا۔

جواب

 واضح رہے کہ اس معاملے میں شرعاًآپ کی حیثیت وکیل کی ہےاوروکیل کی حیثیت امین کی ہوتی ہےیعنی اس پر نقصان کا تاوان اس وقت تک نہیں ڈالا جاتا جب تک اس کی طرف سے تعدی یا غفلت نہ پائی گئی ہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نےاس معاملہ میں اپنے بھائی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کام سرانجام دیا ہےتونقصان کی مذکورہ رقم  آپ پر لازم نہیں اور آپ کےبھائی کاآپ سے ان پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعاًدرست نہیں ہے۔البتہ اگراس نے آپ کو ادھار پر مال بیچنے سے منع کیا تھا پھر بھی آپ نے ادھار پر مال فروخت کیا،تو یہ سائل کی طرف سے تعدی اور غفلت ہے اور ایسی صورت میں  اس کو مطالبے کا حق ہے۔

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

 "المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان."

(‌‌‌‌الكتاب الحادي عشر: في الوكالة،‌‌الفصل الأول: في بيان أحكام الوكالة العمومية،ص:284،ط:نور محمد)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "ويوكل من يتصرف فيه" لأن التوكيل بالبيع والشراء من توابع التجارة والشركة انعقدت للتجارة، بخلاف الوكيل بالشراء حيث لا يملك أن يوكل غيره لأنه عقد خاص طلب منه تحصيل العين فلا يستتبع مثله.قال: "ويده في المال يد أمانة" لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة."

(‌‌كتاب الشركة،فصل: ولا تنعقد الشركة إلا بالدراهم والدنانير والفلوس النافقة،ج:3،ص:11، دار احياء التراث العربي)

 فتح القديرمیں ہے:

"إنما يجوز البيع بالنسيئة إذا لم يكن في لفظه ما يدل على البيع بالنقد، فأما إذا كان في لفظه ما يدل على البيع بالنقد لا يجوز البيع بالنسيئة."

(‌‌‌‌كتاب الوكالة،فصل في الوكالة البيع،ج:8،ص:77،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں