بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیٹی (بی سی) ڈالنے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں دس،پندرہ بندے مل کر کمیٹی بی سی ڈالتے ہیں، جس میں نمبر کی تعیین اس طرح کرتے ہیں کہ ہر ماہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جس کا نمبر نکل آئے وہ شخص پیسے لے جاتا ہے اور باقی تمام حضرات اگلے مہینے کی قرعہ اندازی کا انتظار کرتے ہیں، ہر ماہ یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے،یہ طریقہ کار درست ہے یا نہیں اور اگر درست نہیں ہے تو متبادل بہتر صورت کی طرف رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کمیٹی (بیسی)کامروجہ طریقہ قرض کے لین دین کامعاملہ ہے ،جس کا مقصد باہمی تعاون وتناصرہے ۔یہ معاملہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

بی سی (کمیٹی) میں تمام شرکاء برابر رقم جمع کرائیں، اور انہیں برابر رقم دی جائے اورتمام شرکاءاخیرتک شریک رہیں (ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو۔

اگر اس میں غلط شرائط لگائی جائیں، مثلاً: کسی کو کم، کسی کو زیادہ دینے کی شرط  یا جس کی کمیٹی نکلتی جائے وہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ قرار پائے تو  جائز نہیں ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جاتاہے تو بیسی ڈالنا جائز ہے،نیز  باہمی رضامندی سے  ہر ایک کی بیسی  کی باری کے لیےقرعہ اندازی  کی صورت  اختیار کی جاسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والقرض هو أن يقرض الدراهم والدنانير أو شيئا مثليا يأخذ مثله في ثاني الحال۔"

(كتاب الكراهية،الباب الثاني والعشرون/5/ 366ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو  حرام) أی اذا کان مشروطاً."

(کتاب البیوع،باب بیع الفاسد،166/5،ط:سعید) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں