بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایجنٹ کا بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینا


سوال

جب کسی چیز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے تو (یعنی گاڑی اور مکان)تو اس کے درمیان ایک ایجنٹ ہوتا ہے اور چیز خریدنے یا بکنے کی صورت میں وہ کمیشن لے ،بیچنے والے سے بھی اور خریدنے والے سے بھی ،کیا کمیشن لینا اور دینا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  پراپرٹی ڈیلر/بروکر  اگر بیچنے والے یا خریدنے والے میں سے کسی ایک کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی طرف سے وکیل بنتا ہے اور  خود اس کی طرف سے عقد کرتا ہے تو  اس صورت میں وہ صرف اسی سے کمیشن لے سکتا ہے  جس کا وہ وکیل ہو، دوسرے سے نہیں لے سکتا۔تاہم  اگر ایجنٹ ،بائع اور مشتری میں سے کسی ایک کا بھی وکیل نہ ہو  بلکہ گاڑی یا مکان کے مالک اور خریدارکے   درمیان  رابطہ کرانے کی خدمت انجام دے اور بیع کا عقد فریقین  یعنی بیچنے اور خریدنے والے خود کریں تو اس صورت میں  بروکر کے لیے   دونوں سے طے کردہ  کمیشن  لینا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(4 / 560، كتاب البيوع، ط: سعيد)

جامع الفصولین میں ہے:

"وتجب الدلالية علی البائع اذ قبل بأمر البائع ولو سعی الدلال بينهما فباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالية علی البائع أو علی المشتري أو عليهما بحسب العرف."

(أحكام الدلال وما يتعلق به، ص:153، ج:2، ط:اسلامي كتب خانه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں