عبداللہ ایک کمپنی میں کام کرتا ہے،عبداللہ کی ذمہ داری کمپنی کے لیےسامان خرید کر دینا ہے، کمپنی اس کام کی تنخواہ عبداللہ کو دیتی ہے، عبداللہ نے مال لینے سےپہلے اپنی کمپنی اور فیکٹری والے کے ساتھ معاہدہ کرلیا کہ اتنے اتنے پیسوں میں چیز کی خرید و فرخت ہوگی، معاہدے کے بعد عبداللہ نے فیکٹری والے کے ساتھ فکس کرلیا کہ اگرچہ اسٹیل 5 کلو جاتا ہے تو آپ مجھے اس کے عوض 5 روپے ادا کریں گے ، اس طرح یہ پیسہ لینا ٹھیک ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب عبداللہ کمپنی میں ملازم ہے اور کمپنی کی طرف سے کمپنی کے لیے سامان کی خریدی پر مامور ہے ،اور اسی ذمہ داری کی اُسے تنخواہ دی جاتی ہے تو اس صورت میں عبداللہ کا کمپنی کے لیے سامان خریدتے ہوئے بیچنے والے (فیکٹری والے)سے اس خریداری پر خفیہ نفع / کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ یہ کمیشن رشوت میں داخل ہے اور رشوت کا لین دین ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے،اگر فیکٹری والا سامان میں رعایت کرتا ہے اور کچھ رقم کم کرتا ہے تو عبداللہ پر لازم ہے کہ یہ رقم اپنی کمپنی کو واپس کردے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له."
( کتاب البیوع ،ج:4،ص:560، ط :سعید)
وفیہ ایضاً:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."
(کتاب الاجارۃ ،باب ضمان الاجیر،ج:6،ص:72،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404102109
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن