بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن کا غیر متعین ہونا


سوال

میں آئن لائن کچھ ڈیلر کے ساتھ کپڑے کا کام کرتا ہوں، وہ ڈیلر ہمیں کپڑوں کی تصویریں مع قیمت اور ڈیٹیل کے بھیجتے ہیں، ہمیں ان پرائز (قیمتوں )سے کچھ اوپر رکھ کر سیل کرنا ہوتا ہے، اور وہی اوپر رکھے ہوئی  پرائز (قیمت) ہی ہمارا کمیشن ہوتا ہے، جب آرڈر ملتا ہے تو ہم کسٹمر سے ایڈریس وغیرہ لے کر ڈیلر کو سینڈ کرتے ہیں اور وہ ڈیلر ڈیلیوری کے تمام پراسیس انجام دیتا ہے، اور کیش آن ڈیلیوری کے ذریعے قیمت بھی ڈیلر ہی وصول کرتا ہے، جب آرڈر ڈیلیور ہو جاتا ہے تو ہمارا کمیشن ہمیں سینڈ کر دیا جاتا ہے ،کیا یہ طریقہ کمیشن کا درست ہے؟ اس میں اکثر تو ہم کسٹمر کو ڈائریکٹ پروڈکٹ سیل کرتے ہیں لیکن بسا اوقات ریسیلر ہم سے ڈیل کر کے اپنا پروفٹ رکھ کر آگے سیل کرواتے ہیں،ان سب میں کمیشن غیر مقرر ہوتا ہے لیکن  آڈر لے کر  ڈیلر کو ایڈریس وغیرہ دیتے ہیں اس وقت ڈیلر کے علم میں یہ بات آ جاتی ہے کہ ہم نے کتنا کمیشن رکھا ہے، مجھے اس میں کمیشن کے غیر متعین ہونے کی وجہ سے ہی تذبذب ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں ،یا اس کے علاوہ اگر یہ صورت اختیار کی جاۓ کہ ڈیلر ہمیں کہے کہ تم ایک سوٹ فروخت کرواؤ گے تو اس میں تمہیں 50 روپے کمیشن ہماری طرف سے ملے گا اور اگر تم ہمارے پرائز سے اوپر رکھ کر کسٹمر کو سیل کرو گے تو یہ بھی پروفٹ تمہارا ہی ہوگا،کیایہ صورت درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو صورت سائل نے بیان کی ہے کہ ڈیلر کی طرف سے کپڑے کی تصاویر مع قیمت مکمل تفصیل سے بھیجے جانے کے بعد  سائل ان کو آگے کسٹمر کو کچھ زائد قیمت بتا کر بھیجتا ہے ،اور وہ زائد قیمت ہی سائل کا کمیشن ہوتاہے،لیکن ان تمام معاملات کو خود ڈیلر ہی طے کرتا ہے ،اور قیمت بھی ڈیلر ہی وصول کرتا ہے ،اس صورت میں  سائل کو کمیشن  کے نام سے جو رقم ملتی  ہے ،وہ اس کا م کی اجرت ہے،اور اجرت  کا متعین ہونا ضروری ہے،لہذا مذکورہ صورت میں سائل ڈیلر کی بتائی ہوئی اصل قیمت سے  کچھ زائد قیمت  بتا کر کسٹمر  کو  تفصیل بھیجتا ہے ،اور وہی زائد رقم ہی سائل کا کمیشن ہو تا ہے جوکہ متعین نہیں ہوتا،لہذا سائل کے لیے یہ کمیشن لینا درست نہیں ،البتہ اگر کمیشن  کے نام سے وہ زائد رقم ڈیلر کے ساتھ پہلے سے متعین کر لے تو پھر سودا مكمل ہونے كے بعد وہ متعین  کمیشن لینا جائز ہوگا،مثلاّ ایک سوٹ فروخت کرنے پر 50 روپے کمیشن ملے گا،تو یہ درست ہےلیکن یہ کہنا کہ ڈیلر کے پرائز کے اوپر رکھ کر کسٹمر کو سیل کرنے کی صورت میں زائد پروفٹ سائل کا ہوگا یہ بات صحیح نہیں ،زائد رقم بھی ڈیلر کی ہوگی،اور سائل کو عرف و رواج کے مطابق اجرت مثل ملے گی۔

اور اگر سائل اپنے ڈیلر سے وہ کپڑا  آن لائن خرید کر آگے قبضہ کرنے سے پہلے دوسرےکسٹمر کو فروخت کرتا ہے ،تو یہ خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی ،اس لیے کہ سائل نے اپنے ڈیلر سے لیے گئے کپڑے پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی کسٹمر کو فروخت کردیا،جب کہ منقولی اشیاءمیں کوئی چیز خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه."

( كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، ج:6 / ص:63، ط: سعيد)

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟

(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع."

(كتاب البيوع،247/1،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(كتاب البيوع،فروع في البيوع،560/4،ط:سعيد)

المحيط البرہاني  میں ہے:

"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزاً عن المنازعة كما في باب البيع."

(كتاب الإجارات،الفصل الاول،395/7،ط:دارالكتب العلمية)

فتح القدیر میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، 6/ 510 ،511، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه  لا بیع منقول  ) قبل قبضه ولو من بائعه."

(فصل فی التصرف فی المبیع، 5 /147، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں