بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیٹی کی ایک نئی صورت کاحکم


سوال

جناب میں نے اپنی دکان پر 350 ممبر کی ایک کمیٹی شروع کی ہوئی ہے، اس کمیٹی کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے: کمیٹی کی مدت 40 ماہ ہے، اورکمیٹی کے ممبر 350 ہیں ، ہم لوگوں سے جو رقم وصول کر رہے ہیں،ہماری دکان پر کمیٹی تقریبا 525000 کی جمع ہوتی ہے، ہم دکان پر پرچی سے کمیٹی نکالتے ہیں، ایک ممبر کی کمیٹی نکلتی ہے، اس کی مالیت 60000 ہے، اور لوگوں کے باقی پیسوں 465000 سے کاروبار کرتے ہیں،یہ 465000 لوگوں کا ہم پر قرض ہے، جو ہم نے ان کو مقررہ مدت کے بعد واپس کرنا ہے، اس کاروبار سے جو منافع ہوتےہیں ،اس سے ہم لوگوں کو انعامات دیتے ہیں،    اور کسی ممبر کی بھی ہم کٹوتی نہیں کرتے ،مثلاً: 40 مہینوں میں 40 ممبرز کو پورے پیسے ملیں گے، لیکن جب چالیسواں مہینہ آئے گا، تو باقی310 کو بھی ہم بغیر کٹوتی کے پورے پیسے دیں گے ،ہر مہینے کاروبار میں منافع ہوتا ہے، تو ہم قراندازی کرتے ہیں، جن لوگوں کے مخصوص انعام نکل آتا ہے، ان کو ہم  زیادہ منافع دیتے ہیں ،اور یہ منافع کی شرح بھی فکس نہیں ہے، یہ تبدیل ہوتی ہے اگر زیادہ منافع ہوگا ،تو ہم ان کو زیادہ دیں گے، کم ہوا تو ہم ان کو کم دیں گے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ :تم مزید کمیٹی نہ دینا ،اور جن کو ہم چھوٹے چھوٹے انعام دیتے ہیں، یا ہر پانچ مہینے کے بعد بڑا انعام دیتے ہیں، ان کو ہم کمیٹی میں شامل رکھتے ہیں کہ تم نے کمیٹی دینی ہے، مختصر یہ کہ :ہم کسی بھی ممبر کو نقصان نہیں پہنچاتے، اگر کسی ممبر کا ساٹھ ہزار ہمارے پاس آیا ہے، تو ہم اس کو کمیٹی ختم ہونے کی صورت میں اس کے ساٹھ ہزار پورے دیتے ہیں،ممبران سے رقم بطور قرض وصول کی جارہی ہے ،اور تمام ترنقصان کی  ذمہ داری  ہم پر ہے، اور ممبران جانتے ہیں کہ ہم ان کے پیسوں سے کاروبار بھی کرتےہیں، اور بس کچھ ایسے ممبرزہوتے ہیں، جن کے قرعہ اندازی میں انعامات نکل آتے ہیں، ان کو تھوڑا سا فائدہ پہننچتا ہے،اور یہ فائدہ ہم جو کاروبار کر رہے ہوتے ہیں، اس کے منافع میں سے انعامات کی صورت میں دیتے ہیں، مختصر یہ کہ نہ تو ہم کسی ممبر کی کمیٹی میں سے رقم کاٹتے ہیں ،اورنہ ہی ہم ان کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچاتے ہیں، تمام تر نفع نقصان کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہوتی ہے ،نفع میں سے کچھ حصہ تو ممبر کو دے دیا جاتا ہے، لیکن نقصان کی صورت میں سارے کا سارا نقصان ہم خود اپنے ذمہ  لیتے ہیں، اس طرح کی کمیٹی کاشرعاًکیاحکم ہے؟ ہم اس سےپہلے  اس طرح کی دو کمیٹیاں ختم کر چکے ہیں، اب یہ تیسری شروع کی ہے ۔

جواب

واضح رہےکہ  مذکورہ طریقہ قرض کےلین دین کاہے،اس معاملہ کےجائزہونےکےلیےضروری ہےکہ تمام شرکاء برابررقم جمع کریں،اورانہیں اُن کی رقم برابراورپوری دی جائے،اوراس میں کسی قسم کےاضافہ کی شرط کسی کےلیےبھی نہ لگائی جائے،اوراسی طرح تمام شرکاء اخیرتک شریک رہیں(ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی  نکلتی جائے،وہ بقیہ اقساط سےبری ہوتےجائیں) ،اسی طرح  ہرایک کمیٹی ممبرکویہ حق ملناچاہیےکہ اگروہ اپنی رقم واپس لیناچاہیں،تواس کواس کی رقم واپس دی جائے،اس کوکمیٹی  پوراکرنےپرمجبورنہ کیاجائے۔

مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق کمیٹی کی مذکورہ صورت سوداورقمارمیں داخل ہوکرشرعاً ناجائزہےکہ اس میں کمیٹی ممبران کےساتھ (انعام کی صورت میں )اضافی رقم کی شرط لگائی جاتی ہے،اوراسی طرح اس کمیٹی میں انعام نکلنےوالےشخص کوباقی رقم کی ادائیگی سےبری کیاجاتاہے،ان شرطوں کی بناء پرمذکورہ معاملہ ناجائزہے،اورسائل اورکمیٹی ممبران پرلازم ہےکہ جلدازجلداس معاملہ کوختم کرکےصحیح شرعی معاملہ کی کوشش کریں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأماالذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض،فصل في شراىط ركن القرض،٣٩٥/٧،ط:دارالكتب العلمية)

دررالحکام میں ہے:

"...ألا يرى أن ‌ربا ‌النسيئة حرم لشبهة مبادلة المال بالأجل فلأن تحرم حقيقته أولى."

(كتاب الصلح،شروط الصلح،٤٠٠/٢،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں