بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن ایجنٹ کا اپنی طرف سے پیسے اداء کرنا


سوال

میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر بیرون ممالک  سے کسٹمرز کیلئے سامان  درآمدکرتا ہوں  ابھی ہوا یہ کہ  میں نے لندن سے مال ایک  کسٹمر کیلئے منگوایا  پہلے وہ مال یمن   کے راستے سے آتا تھاجو قریب تھا تو آمدرفت کا خرچہ بھی کم آتا ،مشکلات کی وجہ  سے  اب  یہ کمپنیاں  دوسرا طویل راستہ منتخب کرکے  بحری جہازوں کو اپنی منزل تک پہنچاتی ہیں ،میری کسٹمر کے ساتھ بات اس وقت ہوئی تھی جب یمن کا راستہ استعمال ہوتاتھا ابھی چونکہ کمپنی نے لمبا راستہ اختیار کیا ہے تو کمپنی نے مجھ سے آمد  رفت کے اخرجات بڑھ جانے کی وجہ سے اضافی چارجز بھی وصول کیے ،میں کسٹمر کو اضافی چارجز جو مجھ سے کمپنی نے لیا ہے مانگتاہوں وہ دینے سے انکار کرتا ہے یہ میرا حق بنتا ہے یا نہیں ۔   

جواب

صورت  مسئولہ میں سائل کی ذمہ داری تھی کہ جب  سائل کو علم ہوگیا تھا کہ اب آمد و رفت کے اخراجات بڑھ گئے ہیں تو سائل اسی وقت کسٹمر کو اعتماد میں لےکر اس سے نیا معاہدہ کرتا ،اگر سائل نے ایسا نہیں کیا بلکہ حسب سابق معاہدہ کے مطابق کسٹمر سائل سے مال منگواتا رہا تھا   تو اب سائل پر آنے والے اضافی اخراجات کی ادائیگی کسٹمر پر لازم نہیں ہے تاہم اگر واقعۃ سائل پر اضافی اخراجات کا بوجھ  پڑا ہو تو سائل اور کسٹمر باہمی رضامندی سے ان اضافی اخراجات کو آپس میں تقسیم کرلیں تو یہ صلح   کی صورت ہوگی ،شرعا اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے تاہم سائل بطور حق اسکا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

ہدایہ میں ہے:

"الصلح على ثلاثة أضرب: صلح مع إقرار، وصلح مع سكوت، وهو أن لا يقر المدعى عليه ولا ينكر وصلح مع إنكار وكل ذلك جائز" لإطلاق قوله تعالى: {وَالصُّلْحُ خَيْرٌ} [النساء:128] ولقوله عليه الصلاة والسلام: "كل صلح جائز فيما بين المسلمين إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا."

(الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی  ج3  ص 190 ط:دار احیاء التراث العربی  ۔بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں