بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ کمائی کا حکم / کمانے والا اپنی کمائی کا خود مالک ہے


سوال

 تین بھائی اکٹھے  ایک گھر میں رہتے ہوں اور ان میں سے ایک بھائی  زیادہ کماتا ہو ،   پھر جب یہ تین بھائی کل کو  الگ ہوتے ہیں تو  کیا  کم کمانے والے دو بھائی اس تیسرے بھائی  کے کمائے ہوئے مال میں برابر شریک ہوں گے،  جو اس نے خود کمایا ہو؟یعنی یہ زیادہ کمانے والا بھائی دوسرے دو بھائیوں  کو اپنے کمائے   ہوئے مال میں سے کچھ حصہ  دینے کا پابند ہوگا یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر تينوں  بھائی کما کر پوری کمائی ایک ساتھ جمع کرتے ہیں، پھر اس سے  وقتاً فوقتاً اپنی ضروریات  پوری کرتے ہیں تو اب  اگر یہ بھائی کل کو علیحدہ ہوتے ہیں   اور   مال مشترک ہو ، بھائیوں کے حصے  بھی  متعین  نہ ہوں یعنی یہ معلوم نہ ہو کہ کس کا کتنا حصہ ہے؟ تو ایسی صورت میں تمام موجودمال سب بھائیوں میں  برابر برابر  تقسیم ہوگا۔

لیکن اگر بھائی  صرف ایک گھر میں رہتے ہیں ، کمائی   ہر ایک کی الگ ہے  اور ہر ایک  اپنی کمائی اپنے پاس رکھتا ہے،البتہ گھریلو ضروری اخراجات مل کر برداشت کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ہر ایک اپنی کمائی کا خود مالک ہوگا، کسی کی کمائی میں دوسرا شریک نہ ہوگا۔

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم ‌التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم ‌التفاوت ولا التساوي ولا ‌التمييز.فأجاب بأنه بينهما سوية۔"

(کتاب الشرکۃ، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ: 4 / 325، ط: سعید)

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي ، عن عمه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب ، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا : 6 / 166 ، رقم : 11545 ، ط : دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(کتاب الحدود، فصل فی التعزیر:5 / 44، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں