میری عمر چھ سال تھی کہ والد نے میری والدہ کو طلاق دے دی، پھر والدہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہنے لگی، مجھے بھی ماموں نے اپنے ساتھ رکھا، پھر ماموں نے میری والدہ کی دوسری جگہ شادی کرلی، اور خود ماموں کے بچے بھی شادی کرچکے، گھر میں تنگی کی وجہ سے انہوں نے مجھے مزید ساتھ رکھنے سے معذرت کرلی، تو میں کرایہ کی جگہ میں رہنے لگ گیا، میرا کوئی کاروبار یا نوکری نہیں ہے، بس دیہاڑی لگاتا ہوں، لگ جاتی ہے تو ٹھیک نہیں تو بیٹھا رہتا ہوں، اب میں اپنے حقیقی والد کے پاس گیا کہ مجھے ساتھ رکھو، مگر وہ مجھے ساتھ رکھنے سے انکاری ہوگئے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھے ساتھ رکھنا والد کے ذمے ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ بلوغت کے بعد جب بچہ کسب یعنی کمانے کے قابل ہوجائے تو اس کا خرچہ والد کے ذمہ لازم نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ رکھنا والد کے ذمہ شرعاً لازم ہے،لہٰذا سائل جب کمانے پر قادر ہے تو سائل کو چاہیے کہ کسبِ حلال کی بھر پور کوشش کرے اور اس کے لیے ہر ممکن حلال تدبیر اختیار کرکے اپنے رہن سہن اور نان و نفقہ کا بندوبست کرے، تاہم جب تک کوئی ترتیب نہ بنے اور والد کی استظاعت ہو تو اسے چاہیے خوش دلی کے ساتھ بیٹے کی جائز ضروریات کا خرچہ برداشت کرے اور اسے اپنے پاس رہائش اختیار کرنے دے، یہ والد کے لیے باعثِ اجر وثواب ہوگا۔
ہندیہ میں ہے:
"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة."
(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الرابع فی نفقات الاولاد،ج1،ص562،ط:ماجدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101868
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن