میں ایک ادارہ میں علمی خدمت انجام دے رہا ہوں، اور مجھے فی الحال بہت کم تنخواہ مل رہی ہے، ایک جگہ سے مجھے اطلاع ملی کہ وہاں میری ضرورت ہے اور مجھے بلایا گیا ہے تو محض کم تنخواہ کی وجہ سے زیادہ تنخواہ والی جگہ کی طرف منتقل ہونے کا حکم کیا ہے؟ کسی نے کہا کہ اس طرح سے جگہ تبدیل کرنا گویا اللہ کی طرف سے دی ہوئی روزی کو ٹھکرانا اور اور نا شکری اور ناقدری کرنا ہے، تو کیا شخصِ مذکور کا قول درست ہے؟
اگر سائل ایک جگہ نوکری کررہا ہے، اور اسے دوسری جگہ پچھلی تنخواہ سے زیادہ پر نوکری مل جاتی ہے، تو سائل کا زیادہ تنخواہ کے لیے پچھلی نوکری کو چھوڑنا نا شکری اور ناقدری کے زمرے میں نہیں آئے گا،کیوں کہ اس کو زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ البتہ اگر سائل دینی خدمات سے وابستہ ہے تو زیادہ تنخواہ والی جگہ کے انتخاب کے وقت صرف تنخواہ پیشِ نظر نہ ہو، بلکہ دینی خدمات ہی پیشِ نظر ہوں، بطورِ خاص جب کہ دوسری جگہ آپ کی ضرورت ہے اور آپ کو بلایا گیا ہے۔
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"(وعن نافع قال: كنت أجهز) : بتشديد الهاء أي أهيئ التجارة (إلى الشام) ، أي تارة (وإلى مصر) أخرى وما كنت أتعدى عنهما، وقال الطيبي - رحمه الله -: مفعوله محذوف، أي كنت أجهز وكلائي ببضاعتي ومتاعي إلى الشام وإلى مصر (فجهزت إلى العراق) ، أي مائلا إلى سفره (فأتيت أم المؤمنين) : وفي نسخة: إلى أم المؤمنين (عائشة، فقلت لها: يا أم المؤمنين! كنت) : أي: قبل هذا (أجهز إلى الشام) : أي وإلى مصر، إنما اختصر للوضوح أو للدلالة على أن تجهيزه إلى مصر كان قليلا نادرا (فجهزت إلى العراق) أي الآن (فقالت: لا تفعل!) أي هذا التجهيز والتبديل، فإن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم، لا سيما والمسافة بعيدة وهي مشعرة إلى الحرص المذموم. (ما لك ولمتجرك؟) : اسم لمكان من التجارة، أي: أي شيء وقع لك وما حصل لمتجرك من الباعث على العدول منه إلى غيره؟ أوصل إليك خسران منه، حتى يصدك في محل تجارتك الذي عودك الله الربح فيه، وما هو كذلك لا ينبغي العدول عنه، فإني سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: " إذا سبب الله لأحدكم رزقا من وجه) : بأن جعل رزق أحدكم مسببا عن وصول تجارته إلى محل مثلا (فلا يدعه) أي: لا يترك ذلك السبب أو الرزق (حتى يتغير له) أي بعدم الربح (أو يتنكر له) : بخسران رأس المال، فأو للتنويع، وقيل أو للشك قال الطيبي - رحمه الله: وفيه أن من أصاب من أمر مباح خيرا وجب عليه ملازمته، ولا يعدل منه إلى غيره إلا لصارف قوي لأن كلا ميسر لما خلق له (رواه أحمد وابن ماجه)."
(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: 5، ص: 1905، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144407102205
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن