بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹھیکے دار جو رقم اپنی جیب سے کام پر لگادے، اس کی زکات کا حکم


سوال

1:میں گورنمنٹ کے کام کرتا ہوں، طریقہ یہ ہے کہ کام  ملنے کے بعد میں کام شروع کراتا ہوں،  اور اپنے پیسے لگاتا ہوں،  جب کام مکمل ہوجاتا ہے تو اس کے تقریبًا چار  سے چھ مہینے کے بعد ادائیگی ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ جو پیسے میں نے اس کام میں لگائے ہیں، کیا اس رقم پر زکات ادا کرنی ہے؟

2:  کچھ رقم میں نے ادھار دی ہے اور ادھار بھی لی ہے تو اس کی زکات کس طرح ادا کی جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی طرف سے جتنا سرمایہ حکومت  کی طرف سے ملنے  والے کام پر  لگا ہےتو وہ رقم سائل کی طرف سے قرض ہے، اور  قرض   پر دی ہوئی رقم کی زکات  مالک  پر لازم ہوتی ہے، لہذا سائل کی طرف سے حکومتی کام پر لگنے والی رقم اگر تنہا یا دوسرے موجود روپوں یا سونا یا چاندی یا مالِ تجارت کے ساتھ  مل کر نصاب کے برابر یا اس سے زائدہے تو قرض وصول ہونے کےبعد زکاۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اگرقرض وصول ہونےسے پہلے زکاۃ ادا کرے گا تو زکاۃ ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکاۃ دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔ اور اگر قرض وصول ہونے تک زکاۃ ادا نہ کی اور وصولی میں ایک سے زائد سال گزرگئے اور یہ شخص صاحبِ نصاب بھی ہو تو قرض پر دی ہوئی رقم پر گزشتہ سالوں کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی، البتہ اس صورت میں حکومت کی طرف سے ملنے والی زائد رقم پر گزشتہ سال کی  زکوۃ نہیں ہے، کیوں اس میں ملکیت وصول ہونے کے بعد ظاہر ہوگی ۔

2:سائل نے جو  رقم کسی کو قرض کے طور پر دی ہوئی ہے، اگروہ تنہا یا دوسرے موجود روپوں یا سونا یا چاندی یا مالِ تجارت کے ساتھ  مل کر نصاب کے برابر یا اس سے زائدہے تو قرض وصول ہونے کےبعد زکاۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اگرقرض وصول ہونےسے پہلے زکاۃ ادا کرے گا تو زکاۃ ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکاۃ دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔ اور اگر قرض وصول ہونے تک زکاۃ ادا نہ کی اور وصولی میں ایک سے زائد سال گزرگئے اور یہ شخص صاحبِ نصاب بھی ہو تو قرض پر دی ہوئی رقم پر گزشتہ سالوں کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك.

 (قوله: كقرض) قلت: الظاهر أن منه مال المرصد المشهور في ديارنا؛ لأنه إذا أنفق المستأجر لدار الوقف على عمارتها الضرورية بأمر القاضي للضرورة الداعية إليه يكون بمنزلة استقراض المتولي من المستأجر، فإذا قبض ذلك كله أو أربعين درهما منه ولو باقتطاع ذلك من أجرة الدار تجب زكاته لما مضى من السنين والناس عنه غافلون (قوله: فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم) هو معنى قول الفتح والبحر ويتراخى الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم وكذا فيما زاد بحسابه. اهـ.

أي فيما زاد على الأربعين من أربعين ثانية وثالثة إلى أن يبلغ مائتين ففيها خمسة دراهم ولذا عبر الشارح بقوله فكما إلخ وليس المراد ما زاد على الأربعين من درهم أو أكثر كما توهمه عبارة بعض المحشين حيث زاد بعد عبارة الشارح وفيما زاد بحسابه؛ لأنه يوهم أن المراد مطلق الزيادة في الكسور، وهو خلاف مذهب الإمام كما علمته مما نقلناه آنفا عن المحيط فافهم."

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، مطلب في وجوب الزكاة في دين المرصد، ج:2، ص:305، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوہ ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(كتاب الزكوة، الباب الثالث فى زكوة الذهب، الفصل فى العروض، ج:1، ص:179، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208200682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں