بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے ٹینک کی دیکھ بھال کرنا


سوال

  میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں ،  مالک مکان کا بولنا   کہ  پانی کی ٹنکیاں   چیک کریں اوپر اور نیچے دونوں ، یہ مشکل ہے ہمارے لئے،میں اپنے گھر کی پانی کی ٹینکی کو کھول کر دیکھتا نہیں ہوں ، چیک نہیں کرتا کہ آیا پانی میں کچھ گر تو نہیں گیا، وہ اس لئے کہ جو پانی نلوں میں آتا ہے اس کا رنگ، مزہ اور بدبو کچھ بھی خراب نہیں ہوتا  بالکل صحیح پانی آتا ہے ،  جب رنگ، مزہ اور  بو صحیح ہے تو پھر پانی بھی پاک ہوگا تو چیک کرنے کی ضرورت نہیں ۔تو کیا میرا یہ طرز عمل صحیح ہے؟

جواب

صفائی کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور حدیث میں اس کو آدھا ایمان کہا گیا ہے، اور قرآن و حدیث میں صفائی کی بہت زیادہ تر غیب دی گئی ہے،  آپ علیہ الصلاۃ والسلام صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے اپنے کپڑے جوتے یہاں تک کہ گھر کی صفائی کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اہتمام کرتے تھے۔

بعض اوقات ٹینکی میں کوئی چیز  پرندہ وغیرہ گر جاتا ہے جس سے پانی کے رنگ مزا اور بو میں فورا کوئی فرق نہیں  پڑتا اس لیے  صرف نلکے سے آنے والے پانی  کودیکھنے پر اکتفاکافی نہیں ہے، وقتا فوقتا ٹینک کو  بھی  دیکھتے رہنا چاہیے،اور آپ کو  اپنے گھر  کی  ٹینکی دیکھنا  چاہیے ، دوسروں کی ٹنکیاں دیکھنا آپ کے ذمہ نہیں ہے۔

فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب ميں ہے:

"قوله: "شطر الإيمان" يحتمل أن يكون معناه: الطهارة شطر الصلاة فإن الإيمان ورد في كتاب اللّه تعالى بمعنى الصلاة قال اللّه تعالى: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ} أي صلاتكم إلى بيت المقدس فالشطر النصف والطهارة شرط في صحة الصلاة فصارت كالشطر وليس يلزم في الشطر أن يكون نصفا حقيقيا، وهذا القول أقرب الأقوال، ويحتمل أن يكون معناه أن الإيمان تصديق بالقلب وانقياد بالظاهر وهما شرطان للإيمان والطهارة متضمنة للصلاة فهي انقياد في الظاهر واللّه أعلم."

(‌‌‌‌كتاب الذكر والدعاء،الترغيب في التسبيح والتكبير والتهليل والتحميد على اختلاف أنواعه،ج:7،ص:364،ط:مكتبة دار السلام، الرياض)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412101078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں