بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کم حیثیت ہونے کی وجہ سے اپنی قوم کی طرف نسبت کرنے نہ دینا


سوال

 ہمارے گاؤں میں ایسا ہوا ہے کہ نائی،  موچی،  ترکھان وغیرہ نے اگر  اپنا قبیلہ  کا نام لکھا تو چوہدری ان کو  کو مارتے ہیں  کہ کم حیثیت  ہوکر چوہدریوں کے قبیلوں میں شامل ہوتے ہو؟  حالانکہ چوہدری بھی کسی ایک قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے ،  وہ خود کو راجپوت جاٹ گجر وغیرہ کہتے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ پیشہ اور نسب کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے؟   کمتر پیشہ ہو تو اپنے قبیلہ کی طرف نسبت نہیں کرسکتے؟

جواب

دینِ اسلام کی تعلیمات میں سے ایک جامع ہدایت یہ ہے کہ کوئی انسان کسی کو خاندان، مال و  دولت، حسب نسب، وغیرہ کی بنیاد پر باعزت اور باشرافت، یا کمتر اور رذیل نہ سمجھے؛ کیوں کہ یہ چیزیں تفاخر کے لیے نہیں ہیں، ان سے تو عداوت اور دشمنیاں پھیلتی ہیں،  بلکہ اللہ کے یہاں معزز اور مکرم تو وہ شخص ہے جو پرہیز گار ہو، خوفِ خدا رکھتا ہو، چاہے اعلی نسب والا ہو یا کمتر ہو۔ 

ایک حدیث میں ہے: 

"يا أيها الناس، إن ربكم واحد وأباكم واحد، ألا ‌لا ‌فضل لعربي ‌على ‌عجمي، ولا لعجمي على عربي، ولا أسود على أحمر، ولا أحمر على أسود إلا بالتقوى."

(مجمع الزوائد، كتاب الحج، باب الخطب في الحج، ج:3، ص:265، ط:مكتبة القدسي)

ترجمہ:”اے لوگوں! تم سب كا رب ايك ہے، تمہارے والد بھي ايك (آدم) ہيں، تم ميں سے كسی عربی كو عجمی پر كوئی فضيلت نہيں، نہ ہی عجمی كو عربی پر، نہ ہی  كالے رنگ والے كو كوئی فضيلت ہے  سرخ رنگ والے پر، اور نہ ہی  سرخ والے كو كوئی فضيلت ہے كالے پر، كسي كو بڑائی حاصل نہيں مگر تقویٰ   سے۔“

مذکورہ تفصیل کی رُو سے  اگر مذکورہ پیشے سے وابستہ افراد اگر اپنے قبیلے کی طرف خود کو منسوب کرنے پر اعتراض کرتے ہیں ، مذکورہ سلوک کرتے ہیں تو چونکہ کسی کو کسی کے پیشہ کے لحاظ سے کمترنہیں سمجھنا چاہیے، نیز کسی کو اس کے پیشہ کی وجہ سے اپنی قوم کی طرف نسبت کرنے سے روکنا بھی درست نہیں ہے، ہاں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی دوسرے قبیلہ کی طرف منسوب کرے،  تو یہ جائز نہیں ہے، اس بارے میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں،  اس صورت میں اس سے روکنا درست ہے،لیکن جو شخص جس قوم سے تعلق رکھتا ہے، اور اس کی قوم والے اس کے پیشہ اور کم حیثیت ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں  شامل نہیں کرنا چاہتے، تو یہ غلط ہے۔ 

قرآنِ کریم میں ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (الحجرات: 13)

”اے لوگو! ہم نے تم کو  ایک مرد اور ایک عورت سے  پیدا کیا ہے، اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو،  اللہ خوب  جاننے والا پورا  خبردار  ہے۔“(بیان القرآن)

جواہر الفقہ میں ہے:

”الغرض باری سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے طبقات انسانی میں باوجود اتحاد جنس و نوع اور اتحاد صورت و شکل کے درجات تفاضل قائم فرما دیے ہیں ، جن کا تعلق کہیں انساب سے ہے کہیں پیشوں سے اور کہیں صنفی تغیرات سے ، لیکن حدیث کے الفاظ اور اغراض و مقاصد پر نظر غائر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک ان تمام درجات کے تفاضل و تفاوت کا مدار اسی ایک اصل پر ہے جس کو ابتداء رسالہ میں ذکر کیا گیا ہے، یعنی تقویٰ اور اطاعت الہیہ ۔“

(اسلام اور نسبی امتیازات، ج:4، ص:346، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی، طبع جدید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں