بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کم آبادی والی جگہ پر جمعہ شروع کرنا کیسا ہے ؟


سوال

کیا فرماتے ہے مفتیان اکرام اس مسجد کے بارے میں جس میں نمازیوں کی گنجائش70 تک کی ہے اور مسجد بنی ہوئی قریب پچیس سال ہوگئے ہیں، اور جمعہ کی نماز نہیں ہوئی، اب اگر ہم وہاں جمعہ کی نماز کا اہتمام کرنا چاہیں تو کیا حکم ہے؟ اور مسجد کے قریب آبادی کم ہے لیکن تیل کا ڈپو ہونے کی وجہ سے نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور پانچ سے چھ دوکانیں بھی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ وعیدین کی ادائیگی کے لیے شہر یا فنائے شہر یا بڑا گاؤں ہونا ضروری ہے کہ وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں، ڈاکٹر کے کلینک ہوں، ڈاکخانے اور پنچایت کا نظام ہو، ضروری پیشہ ور موجود ہوں، الغرض لوگوں کی  ضروریات  پوری ہوتی ہوں اس کی آبادی  ڈھائی تین ہزار ہو تو اس میں جمعہ جائز ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ جگہ میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہیں تو یہاں جمعہ کی نماز پڑھی جا سکتی ہے اور اگر جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں تو جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جائے گی بلکہ ظہر کی نماز پڑھی جائے گی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (الكاساني)میں ہے:

"ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."

 (كتاب الصلاة،فصل صلاة الجمعة،فصل بيان شرائط الجمعة،ج:1،ص:259،ط:دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات."

(‌‌كتاب الصلاة،باب الجمعة،ج:2، ص:138ط،دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں