بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق اور مہر کاحکم


سوال

 میرا نکاح 8 جنوری 2023 میں ہوا تھا اور نکاح کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ شاپنگ کرنے مارکیٹ گئی  تھی اور مارکیٹ سے واپس ہم گھر آئے تو گھر پہ کوئی نہیں تھا۔ ہم نے تقریبًا 10 منٹ اکیلے کمرے میں گزارے اور میاں بیوی کا تعلق بھی قائم کیا، لیکن میرے  شوہر پہلے ہی ڈسچارج ہو گئے اور جماع مکمل نہ ہو سکا۔ ہماری ابھی تک دنیا کے سامنے رخصتی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن میں نے  ایک مفتی صاحب کے بیان میں سنا ہے کہ اس طرح میاں بیوی نکاح کے بعد اکیلے رہیں تو شریعت اسے رخصتی ہی سمجھتی ہے۔ اب میرے شوہر رخصتی سے پہلے ہی مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں کیا ان کو مجھے حق مہر ادا کرنا پڑے گا؟ نیز میرے نکاح نامہ میں حق مہر غلطی سے 3 لاکھ لکھا ہے لیکن میرے شوہر، میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان حق مہر 3 تولہ سونا طے ہوا تھا۔ میرے شوہر نے بعد میں مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں نکاح نامہ میں تبدیلی نہ کروایں اور ہمارے درمیان جو 3 تولہ طے ہوا ہے وہ مجھے وہی 3 تولہ سونا ہی ادا کریں گے۔ اب طلاق کی صورت میں اس کے کیا احکام ہوں گے؟ اور عدت کے متعلق کیا احکام ہوں گے میرے لیے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں رخصتی سے قبل  چونکہ  میاں بیوی   کے درمیان خلوت صحیحہ ہوچکی تھی،ازداوجی تعلق بھی  قائم ہوچکا ہے،اس لئے خلوت صحیحہ  کے بعد طلاق دینے کی صورت میں مکمل مہر ادا کیا جائے گا ،  اور پوری عدت   مکمل تین ماہواریاں  گزار کر  سائلہ  دوسری جگہ نکاح کر  نے میں آزاد ہو گی ،اسی طرح نکاح کے موقع پر فریقین کی رضامندی سے اگرمہر  تین تولہ  سونا ہی طے ہواتھا ، اور سائلہ کے شوہر  نے  نکاح نامہ پر تین لا کھ  لکھوائے  تھے  ، اس صورت میں سائلہ کے شوہر  کے ذمہ تین تولہ سونا ہی  دینا  ہی لازم  ہے ۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل. (و) من الحسي (رتق) بفتحتين: التلاحم (وقرن) بالسكون: عظم (وعفل) بفتحتين: غدة (وصغر) ولو بزوج (لا يطاق معه الجماع ــ) بلا (وجود ثالث معهما) ولو نائما أو أعمى (إلا أن يكون) الثالث (صغيرا لا يعقل) بأن لا يعبر عما يكون بينهما (أو مجنونا أو مغمى عليه) لكن في. البزازية: إن في الليل صحت لا في النهار، وكذا الأعمى في الأصح (أو جارية أحدهما) فلا تمنع به يفتى مبتغى   (والكلب يمنع إن) كان (عقورا) مطلقا. وفي الفتح: وعندي أن كلبه لا يمنع مطلقا (أو) كان (للزوجة وإلا) يكن عقورا وكان له (لا) يمنع وبقي منه."

  (کتاب النکاح،باب  المہر،3/ 114،سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے : 

"[مطلب في مهر السر ومهر العلانية]

 (قوله: المهر مهر السر إلخ) المسألة على وجهين: الأول تواضعا في السر على مهر ثم تعاقدا في العلانية بأكثر والجنس واحد، فإن اتفقا على المواضعة فالمهر مهر السر وإلا فالمسمى في العقد ما لم يبرهن الزوج على أن الزيادة سمعة، وإن اختلف الجنس فإن لم يتفقا على المواضعة فالمهر هو المسمى في العقد، وإن اتفقا عليها انعقد بمهر المثل، وإن تواضعا في السر على أن المهر دنانير ثم تعاقدا في العلانية على أن لا مهر لها فالمهر ما في السر من الدنانير؛ لأنه لم يوجد ما يوجب الإعراض عنها، وإن تعاقدا على أن لاتكون الدنانير مهرًا لها أو سكتا في العلانية عن المهر انعقد بمهر المثل". 

(کتاب النکاح ، باب المہر ،3/ 161،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں