بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلمہ حق والی حدیث کا صحیح محمل


سوال

میرا میسیج جو (میں نے کسی کتاب میں پڑھا )اور کہیں لوگوں کو میسیج بھی کیا کہ" ایک مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ حق بات کہنے میں کسی کی پرواہ نہ کرے ،حق بات کہنے کو بہترین جہاد کہا گیا ہے ۔"

میرے دوست کا مؤقف :

یہ بات (سائل کا مؤقف)وہ ہے جو ایک شخص کہتا ہے ،کہ جو میں کہوں ،وہی حق ہے ،اور جو میرے مخالفین کہیں ،وہ غلط ہے ،اور مخالفین سے لڑنا جہاد ہے ،آپس کے اختلاف کو جہاد سے تعبیر کرنا ،ایک مقدس فریضہ کی توہیں ہے ،جہاد کفار سے لڑنے کو ،اور مسلم حاکم حکمران کے سامنے حق بات کہنا جہاد ہے ،اس طرح نہ کریں ،یہ مجھے میرے دوست نے کہا ۔

پو چھنا یہ ہے کہ :

1۔جو بات میں نے کئی لوگوں کو میسیج کے ذریعے بھیجی ہے ،کیا وہ درست ہے ؟

2۔میرے دوست نے میرے  میسیج کے جواب میں سیاست کی بات شروع کر دی حالاں کہ میں نے اپنے میسیج میں سياست کی بات نہیں کی تھی،کیا ان کا یسا کرنا درست ہے ۔

3۔میرے دوست کا یہ کہنا کہ"آپس کے اختلاف کو جہاد سے تعبیر کرنا ایک مقدس فریضہ کی توہین ہے ،"میرے میسیج میں آپس کے اختلاف کا کوئی ذکر ہی نہیں ،تھا ،کیا اس نے یہ کام درست کیا یا غلط؟

جواب

آپﷺ کا ارشاد ہے کہ "ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے “یہ حدیث عام نہیں کہ ہر جگہ صادق آتی ہو،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب بادشاہ کے سامنے حق کہنے سے جان جانا یعنی قتل ہوجانا یقینی ہو تو کلمۂ حق کہنا افضل جہاد  مانا جاتا  ہے ،اس لیے سیاسی معاملات اور آپسی اختلافات میں  ایسےاحادیث چسپاں کرنا اور خود سے اس کا مصداق  متعین کرنا غلط ہے،نیز حق  بات کہنے کے لیے انسان کو سخت زبان اور سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم نہیں ہے،بلکہ حق بات کہنے کے بھی علماء نے آداب بیان کیے ہیں :

1- جو بات کہی جائے حق ہو ۔

2-اس کہ کہنے کا طریقہ بھی حق ہو ۔

3-موقع بھی  حق ہو۔

اس لیےاپنی بات اگر چہ حق ہو ،اس کے لیے بد زبانی اور بد کلامی  ہر گز شرعاً پسندیدہ نہیں ۔

مشكاة شريف ميں هے ؛

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أفضل الجهاد من قال كلمة حق عند سلطان جائر» . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه."

(كتاب الامارة  والقضاء ،ج:ج:2 ،ص:1094 ،ط:المكتب الاسلامي)

قرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعنه) ; أي عن أبي سعيد (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أفضل الجهاد من قال)  أي جهاد من قال، أو أفضل أهل الجهاد من قال: (كلمة حق)  أي قول حق ولو كان كلمة واحدة، وضده ضده (‌عند ‌سلطان ‌جائر) ; أي صاحب جور وظلم، قال الطيبي: أي من تكلم كلمة حق ; لا كلمة حق تحمله، قال الخطابي: وإنما صار ذلك أفضل الجهاد  لأن من جاهد العدو وكان مترددا بين الرجاء والخوف، لا يدري هل يغلب، أو يغلب؟ وصاحب السلطان مقهور في يده، فهو إذا قال الحق وأمره بالمعروف، فقد تعرض للتلف، فصار ذلك أتلف أنواع الجهاد ; من أجل غلبة الخوف وقال المظهر: وإنما كان أفضل ، لأن ظلم السلطان يسري في جميع من تحت سياسته، وهو جم غفير، فإذا نهاه عن الظلم فقد أوصل النفع إلى خلق كثير."

(كتاب الامارة  والقضاء ،ج:6،ص:2412،ط:المكتب الاسلامي)

تفسیرِ خازن میں ہے :

"وقولوا: ‌للناس ‌حسنا ومعناه مروهم بالمعروف وانهوهم عن المنكر وقيل هو اللين في القول والعشرة وحسن الخلق."

(تفسير سورة البقرة :84 ،ج:1 ،ص:58 ،ط:دارالكتب العلمية)

فتح الباری میں ہے :

وفي الحديث تعظيم الأمراء والأدب معهم وتبليغهم ما يقول الناس فيهم ليكفوا ويأخذوا حذرهم بلطف وحسن تأدية بحيث يبلغ المقصود من غير أذية للغير."

(باب الفتنة تموج كموج البحر،ج:13 ،ص:53 ،ط:دارالفكر)

 فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144411101635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں