بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلمات کفریہ سے نکاح کا حکم


سوال

کیا کلماتِ  کفر  سے نکاح فسخ ہوجاتا ہے؟دوسری بات یہ ہے کہ کیا شوہر اور بیوی کے کلماتِ کفر کہنے سے اَحکام میں کوئی فرق  پڑتا ہے؟ مثلًا اگر بیوی کلمہ کفر کہے تو اس  کے لیے الگ اَحکام  ہیں اور اگر شوہر کہے تو اس  کے لیے الگ ہیں؟

جواب

اپنے ارادے/ اختیار سے کلماتِ  کفریہ  ادا کرنے   سے انسان دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات غصے میں یا مذاق میں کہے ہوں، یا ان کے مطابق عقیدہ نہ ہو، لیکن کلمات کفر ہوں۔

اگر ایسا کہنے والا مرد ہو تو اس کا نکاح ختم ہو جائے گا اور اس کے ذمہ لازم ہوگا کہ فورًا اپنے اسلام کی تجدید کرے اور  نکاح کی بھی؛ اس لیے کہ ان کلمات سے توبہ کرلینے  اور دوبارہ سے دائرۂ  اسلام  میں داخل ہونے کے بعد  نکاح کا اعادہ لازم ہوجاتا ہے۔

اور اگر  ایسا کہنے  والی شادی شدہ عورت ہے تو  اس  کے لیے حکم یہ  ہے کہ اس کا  نکاح تو  قائم رہے گا، لیکن اس  کے لیے حکم یہ ہے کہ فورًا تجدیدِ  اسلام کرے،  البتہ اس عرصے  میں یعنی جب  وہ  عورت مسلمان  نہ  ہو ( چاہے اپنا مذہب بدل کر اہلِ  کتاب میں شامل ہو گئی ہو یا مجوسیہ وغیرہ ہو گئی ہو)  تب تک اس سے ہم بستری  وغیرہ نہ کرے۔ نیز جب  وہ  مسلمان ہو جائے تو  پھر  دوبارہ  احتیاطًا نیا نکاح کیا جائے۔ (حیلہ ناجزہ ص 327)

اور اگر نعوذ باللہ  زوجین دونوں  ایک ساتھ ہی مرتد ہوگئے ہوں،  یعنی ایک ساتھ ہی کلمہ کفر کہا تو نکاح باقی رہتا ہے۔ (حیلہ ناجزہ ص 320)

جمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687):

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

"الدر المختار " (4/ 224):

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".
قال ابن عابدین رحمه الله:

" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں