بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلماتِ کفر بھول کر کہنے کا حکم


سوال

بھول کر یا غلطی سے کلماتِ  کفریہ کہہ دینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ معلوم نہ تھا کہ یہ کلمات کفریہ ہیں پھر کیا حکم ہے؟ تجدید نکاح لازم ہے؟

جواب

جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے ۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

اور اگر سائل کی مراد بھول کر یا غلطی سے کلمہ کفر  کہنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کلمہ کفر کا علم نہیں تھا، لیکن اس نے وہ جملہ اپنے ارادے سے کہا تھا تو یہ جہالت اس کے لیے عذر نہیں ہے، اس صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا۔

 چنانچہ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687):
"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".
"الدر المختار " (4/ 224):
"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".
قال ابن عابدین رحمه الله:

" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".
"مسوی شرح مؤطا " (2/ 130):
"وإن اعترف به ظاهرًا ولکن یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و أجمعت علیه الأمة فهوالزندیق، کما إذا اعترف بأن القرآن حقّ ومافیه من ذکر الجنة والنار حقّ، لکن المراد بالجنة الابتهاج الذی یحصل بسسب الملکات المحمودة والمراد بالنار هي الندامة التي تحصل بسبب الملکات المذمومة ولیس في الخارج جنة ولا نار فهو زندیق". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109201824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں