بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کلمات کفریہ سے توبہ کرنے کے لیے کیاان کلمات کی ادائیگی شرط ہے؟


سوال

 اگر کسی سے تین چار کفریہ کلمات یا عمل صادر ہوئے ہوں ،تو کیا اس کو توبہ کرتے ہوئے ہر کفریہ کلمہ کو ادا کرنا ضروری ہے؟ مثلا کسی نے کہا اللہ ایک نہیں ہے(معاذاللہ)، یہ بھی کہا کہ اسلام سے اچھی تو عیسائیت ہے (معاذاللہ)، یہ بھی کہا کہ نمازیں صرف دو ہونی چاہئے تھیں(معاذاللہ)، مذاق مذاق میں ہندووں کی طرح پوجا پاٹ بھی کی ہو (معاذاللہ)،اور پھر اللہ اس کو توبہ کی توفیق دے دیں ،اور اس کو یہ جملے یاد بھی ہوں ،تو کیا  ان جملوں سے اسے توبہ کرنا ضروری ہے کہ اے اللہ میں نے جو یہ کہا کہ اللہ ایک نہیں ہے (معاذاللہ)میں اس جملے سے توبہ کرتا ہوں، پھر کلمہ پڑھ کہ دوسرے کفر سے توبہ کرے کہ اے اللہ میں نے جو عیسائیت کو اسلام سے اچھا کہا (معاذاللہ)اس سے توبہ کرتا ہوں ،پھر کلمہ پڑھ کہ اے اللہ میں نے جو مذاق میں پوجا پاٹ کی (معاذاللہ)اس سے توبہ کرتا ہوں ،پھر کلمہ پڑھے کیا اس طرح ہر جملہ سے توبہ کرنا ضروری ہے ؟یا ایک بار میں یہ کہہ دے کہ اے اللہ میرے سے آج تک جتنے بھی کفریات صادر ہوئے ہیں، جانے انجانے میں ان سب سے توبہ کرتا ہوں پھر کلمہ پڑھ لے یا پھر ہر کفر کو ادا کر کے توبہ کرنا ضروری ہے؟ 

جواب

اگر کسی سے متعدد کلماتِ کفری صادر ہوگئے ہوں  ،تو ایک ہی مرتبہ اپنے ایمان کی تجدیدکرے،تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ  کلمۂ شہادت زبان سے ادا کیا جائے اور دل سے اس کی تصدیق کی جائے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کتابوں، فرشتوں، رسولوں، آخرت کے دن، اچھی بری تقدیر اور روزِ قیامت جیسے بنیادی عقائد پر ایمان کا اعتراف کرلے۔البتہ  اگر کسی چیز سے انکار کی بنا پر ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو اس کا اقرار کر لے (مثلاً توحید کا انکار کرنے کی وجہ سے ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو توحید کا اقرار کرے)، اور کسی ایسی چیز کو اختیار کرلیا تھا جو ایمان کے خلاف تھی تو اس سے بے زاری اور براءت کرے، مثلاً عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا جس وجہ سے ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو عیسائی مذہب سے بے زاری  اور براءت کرے، جو کلمات کفر کہے تھے ان  کو زبان سے اداکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

"الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"أركان وشروط التوبة:

4 - ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا."

(ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)

"ردالمحتار"میں ہے:

"ثم اعلم أنه يؤخذ من مسألة العيسوي أن من كان كفره بإنكار أمر ضروري كحرمة الخمر مثلًا أنه لا بد من تبرئه مما كان يعتقده لأنه كان يقر بالشهادتين معه فلا بد من تبرئه منه كما صرح به الشافعية وهو ظاهر".

(باب المرتد، ج:4، ص:228، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں