بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلماتِ کفر ادا کرنے کی صورت میں نکاح کا حکم


سوال

 اگر کوئی بھی شخص اپنی بیوی سے غیر شرعی طریقے سے ہم بستری پر زور دے اور بیوی کے منع کرنے پر وہ شریعت کا انکار کرتے ہوۓ یہ الفاظ کہے کہ (نعوذ باللہ): "میں تو مسلمان نہیں ہوں اور میں اللہ کو نہیں، بلکہ  (نعوذ باللہ) کسی بھگوان کو مانتا ہوں،" جس میں وہ کالی ماتا  اور ہندو مذہب کے دیگر بھگوانوں  کا نام لیتا ہے، جب بیوی کی شکایت پر اس سے بڑوں نے پوچھا تو اپنی وضاحت میں کہتا ہے کہ میں نے غصہ میں یا پھر مذاق میں یہ الفاظ کہے ہیں، اس کے ساتھ اگر اس کو کہا جاۓ کہ نماز پڑھو، تو اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ: "نماز سے کچھ نہیں ہوتا، میں تو بخشا بخشایا ہوں، کیوں کہ میری خاندان کی پہلی پیڑی ہندو تھی اور خاندان کی تیسری پیڑی سے ہم مسلمان ہوئے ہیں، میرے لیے نماز معاف ہے"۔

اس مسئلہ میں راہ نمائی فرمائیں که شریعت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اور کیا اس کا نکاح ان الفاظ کے بعد باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اس کا کفارہ کیا ہے؟ اور اس کی بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر نکاح ختم ہو گیا ہے؟ اور یہ شخص تو بہ تائب ہوتا ہے، تو اس کی بیوی کا نکاح کس طرح دو بارہ ہوگا یا پھر تو بہ تائب ہونے کے بعد نکاح باقی رہے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ  مذکورہ شخص نے یہ کہا کہ  "میں تو مسلمان نہیں ہوں اور میں اللہ کو نہیں ، بلکہ  (نعوذ باللہ) کسی بھگوان کو مانتا ہوں"تو یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکا ہے، اس کا نکاح  اپنی بیوی سے ٹوٹ چکا ہےاور اس کی بیوی اس پر حرام ہوچکی ہے، لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے فوراً علیحدگی اختیار کرے،  مذکورہ شخص  پر لازم ہے کہ  وہ اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرے ،تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرے،اس کی بیوی کا اس کے ساتھ  بغیر تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔

البتہ جب اسے نماز پڑھنے کو کہا جاتا ہے اور اس کےمقابلے میں وہ یہ بات کہتا ہے کہ: "نماز سے کچھ نہیں ہوتا، میں تو بخشا بخشایہ ہوں، کیوں کہ میری خاندان کی پہلی پیڑی ہندو تھی اور خاندان کی تیسری پیڑی سے ہم مسلمان ہوئے ہیں میرے لیے نماز معاف ہے،" تو یہ جملہ بالکل درست نہیں، کیوں کہ عاقل بالغ آدمی پر نماز فرض  ہے، اس پرنماز معاف نہیں۔

الدر المختار میں ہے:

"«‌‌باب المرتد هو لغة الراجع مطلقا وشرعا (الراجع عن دين الإسلام وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان) وهو تصديق محمد - صلى الله عليه وسلم - في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار؟ قولان وأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول والإقرار شرط لإجراء الأحكام الدنيوية بعد الاتفاق على أنه يعتقد متى طولب به أتى به فإن طولب به فلم يقر فهو كفر عناد قاله المصنف وفي الفتح من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:221، ط:سعيد)

رد المحتار ميں ہے:

"(قوله لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن) ظاهره أنه لا يفتى به من حيث استحقاقه للقتل ولا من حيث الحكم ببينونة زوجته. وقد يقال: المراد الأول فقط، لأن تأويل كلامه للتباعد عن قتل المسلم بأن يكون قصد ذلك التأويل، وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها، بدليل ما صرحوا به من أنهم إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان لا يكفر فيما بينه وبين ربه تعالى، فتأمل ذلك وحرره نقلا فإني لم أر التصريح به، نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:229، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں