بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کلمہ طیبہ اذان اور دعا کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا کیسا ہے؟


سوال

1۔کلمہ سے پہلے حق پڑھنا اور کلمہ کے بعد ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پڑھنا   ۔

2۔اذان سے پہلے اور بعد میں درود پڑھنا ۔

3۔دعا  سے پہلے اور بعد میں درود پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

1۔ کلمہ طیبہ کے الفاظ صرف ’’لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘ ‘ ہیں۔ لفظ حق اور صلی اللہ علیہ وسلم کلمہ طیبہ کا جز نہیں ہے ، لہذا کلمہ کے ساتھ اس کا پڑھنا لازم  بھی  نہیں ہے، اور یہ کلمات کلمے میں اضافے کی غرض سے  کہنے بھی نہیں چاہیے ،  البتہ اگر کوئی کلمہ پڑھنے کے بعد مستقل درود بھی پڑھ لے تو منع نہیں ہے۔

2۔ درود شریف پڑھنا ایک مستقل عبادت ہے، اس کے بہت سے فضائل قرآن وحدیث میں وارد ہیں، لیکن دوسری طرف اذان ایک مستقل عبادت ہے جو نماز کی خبر دینے کے لیے مشروع کی گئی ہے اور اس کے الفاظ حدیثِ  مبارک  سے ثابت اور منقول ہیں، اس میں کسی قسم کا اضافہ یا کمی کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اذان سے پہلے اور بعد میں باآوازِ  بلند درود وسلام  پڑھنا ثابت نہیں ،اس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ سنت  میں  نہ خلفاء راشدین  سے اس کا ثبوت ہے اور نہ  ہی  دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانہ میں اس پر عمل تھا۔ یہ دین میں ایک نئی چیز کی ایجاد ہے جس کو  بدعت کہتے ہیں لہذا اس کا ترک  لازم ہے  ،  البتہ اذان کے بعد آہستہ آواز سے انفرادی طور پردرودشریف اور دعاکا پڑھنا   اس طرح کہ اسے اذان کا حصہ نہ سمجھا جائے،سنت سے ثابت ہے۔

3۔ دعا کےشروع اور آخر میں   درود شریف پڑھنا فرض اور لازم نہیں، البتہ دعا کی مقبولیت کا سبب ہے ،اور یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اس سے دعا میں تاثیر  پیدا ہو جاتی ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے خود منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر درود شریف بھیجا جائے، پھر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درود شریف پڑھ کر پھر دعا ختم کی جائے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله، قال: كنت أصلي والنبي صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر معه، فلما جلست بدأت بالثناء على الله، ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم دعوت لنفسي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «سل تعطه، سل تعطه»."

(ج:2،ص:488،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفي البابي الحلبي - مصر)

وفيه أيضاّ:

"عن فضالة بن عبيد، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلى فقال: اللهم اغفر لي وارحمني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عجلت أيها المصلي، إذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو أهله، وصل علي ثم ادعه». قال: ثم صلى رجل آخر بعد ذلك فحمد الله وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «أيها المصلي ادع تجب». هذا حديث حسن."

(ج:5،ص:316،رقم الحدیث:3476،ط::شركة مكتبة ومطبعة مصطفي البابي الحلبي - مصر)

سنن ابی داود میں ہے:

"أن أبا علي عمرو بن مالك حدثه أنه سمع فضالة بن عبيد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلًا يدعو في صلاته لم يمجد الله ولم يصل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "عجل هذا" ثم دعاه، فقال له أو لغيره: "إذا صلى أحدكم فليبدأ بتمجيد ربه والثناء عليه، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يدعو بعد بما شاء."

(ج:2،ص:605،ط:دار الرسالہ العالمیہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

 "عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: إن الدعاء موقوف بین السماء و الأرض لایصعد منها شيء حتی تصلي على نبیك. رواه الترمذي.'

(باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، ص:87 ط: قدیمی)

ترجمه :حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی آسمان کی طرف بلند نہیں ہوتا جب تک تم اپنے نبی صلي الله عليه وسلم  پر درود نہ بھیجو۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308102100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں