بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار سو اسی (480) افراد پر مشتمل آبادی والے علاقے میں جمعے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے کا نام "کلی ریکو" ہے،جو نوشکی شہر سے تقریباً 47 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور یونین کونسل احمد وال اور ساتھ ہی احمد وال شہر سے 17 کلو میٹر دور ہے۔ "کلی ریکو" میں کُل گھر 43 ہیں اور شادی شدہ افراد کی تعداد 86 ہیں، اور کُل آبادی 480 افراد پر مشتمل ہے جس میں بچے اور بچیاں سب شامل ہیں، مرد افراد میں اکثریت ڈرائیور حضرات کی ہے جو اکثر موجود نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے علاقے کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور محنت مزدوری ہے، ہمارے علاقے میں چھ پرچون کی دکانیں اور ایک آٹا چکی ہے اور ان دکانوں میں روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی مکمل طور پر دستیاب نہیں ہیں، علاوہ ازیں کلی میں ایک بیسک ہیلتھ یونٹ (Basic Health Unit)، ایک میڈیکل اسٹور، ایک بوائز مڈل اسکول، ایک گرلز پرائمری اسکول اور آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک لیویز تھانہ واقع ہے۔ ہمارے علاقے "کلی ریکو" کے آس پاس ڈیڑھ کلومیٹر سے پندرہ کلومیٹر کے درمیان چھوٹی چھوٹی بستیاں واقع ہیں، ہمارے علاقے کے مکین اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے نوشکی شہر جاتے ہیں، بعض اوقات اگر کوئی خصومت پیش آجائے اس کے تصفیہ کے لیے سرکاری یا شرعی طور پر فیصلے کے لیے نوشکی شہر جانا پڑتا ہے، کیوں کہ علاقے میں کوئی مجسٹریٹ/ حاکم نہیں ہے۔

ہمارے علاقے میں جمعے کی نماز نہیں ہوتی ہے، لیکن اب حال ہی میں ہمارے علاقے "کلی ریکو" میں ایک عالمِ دین آئے اور بتایا کہ میں یہاں جلد جمعۃ المبارک کی نماز شروع کراؤں گا، تو اس مسئلہ میں آپ حضرات علمائے کرام اور مفتیان عظام کی کیا رائے ہے کہ"کلی ریکو" میں جمعے کی نماز شروع کرنی چاہیے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے اس جگہ کا مصر(شہر)ہونا یا فناءِ مصر ہونا یا قریہ کبیرہ(بڑا گاؤں)ہونا شرط ہے،قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی،تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہو ، وہاں ضرورت کی اشیاء آسانی سے مل جاتی ہوں اور اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو  یعنی لوگوں کو اپنے روز مرہ کی ضروریات اور معاملات کے لیے شہر نہ جانا پڑتا ہو۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں، بلکہ مکروہِ تحریمی ہے۔

درج بالا تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئےصورتِ مسئولہ میں سائل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق "کلی ریکو" نامی مذکورہ علاقہ بڑا گاؤں نہیں ہےاوراس کے ساتھ شہر کی ضروریات وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ   فناءِمصر بھی نہیں ہے ؛کیوں کہ فناءِمصر وہ مقام ہوتاہے جو شہر کی ضروریات کے لیے متعین ہو،چاہے شہرسے متصل ہو یا نہ ہو،مثلاًقبرستان وغیرہ اور مذکورہ گاؤں ایسا نہیں،لہٰذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں، اس لیے مذکورہ عالمِ دین کا "کلی ریکو" نامی مذکورہ علاقے میں جمعہ کی نماز شروع کروانا درست نہیں ہے، مذکورہ علاقےوالوں پر جمعہ کی بجائے باجماعت ظہر کی نماز  ادا کرنا لازم ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثرالفقهاء مجتبى؛لظهور التواني في الأحكام،وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاضيقدر على إقامة الحدود۔۔۔۔۔(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل ".

(کتاب الصلوٰۃ،باب الجمعۃ،2/ 137۔152،ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر".

(کتاب الصلوۃ،باب الجمعۃ،2/ 138،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة.وفي الرد:(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح".

(کتاب الصلوۃ، باب العیدین،2/ 167،ط:سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"قریہ میں جمعہ اور قریہ کی تعریف

سوال :- جمعہ فی القریٰ جائز ہے یا نہیں۔ قریہ اورشہر کی تعریف مفصل تحریر فرمائیں۔

الجواب حامداًومصلیاً

قریۂ صغیرہ میں جمعہ جائز نہیں، قریہ کبیرہ میں جائز ہے۔۱؂ قریہ اور شہر کی تعریف میں عرف کے اعتبار سے تغیر ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے کہ ماہیت کی تعریف تو مقصود نہیں ہے۔ آثار و علامات کے اعتبار سے تعریف کی جاتی ہے جس سے دونوں میں فی الجملہ امتیاز قائم ہو جائے۔ آثار و علامات کا تغیر بدیہی ہے۔ مثلاً جس جگہ جمعہ کی اجازت ہو، اس کے متعلق اس طرح  علامات بتائی جائیں کہ وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروری پیشہ ور رہتے ہوں، ڈاکخانہ ہو، شفاخانہ ہو یا حکیم ڈاکٹر ہو، نزاعات کا فیصلہ کرنے کے لئے سرکاری حاکم یا پنچایت ہو، بازار ہو، روز مرہ کی ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں۔ایسا نہ ہو کہ ہفتہ میں ایک دن بازار لگا،باہر سے دوکاندار سامان لائے۔ ان سے ضروریات خرید لی گئیں وہ چلے گئے ، بازار ختم ہوگیا، پھر ضروریات خریدنے کے لئے دوسرے بازار کا انتظار کرنا پڑے، کم وبیش ڈھائی ہزار کی آبادی ہو۔ یہ تعریف حقیقی نہیں، جس سے ادراک بالکنہ حاصل ہو"۔

(کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 8/ 65، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100198

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں