بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کلماتِ اذان کو کھینچ کر پڑھنے کا حکم


سوال

اذان میں کلمات کو کھینچنا حسنِ صوت کی غرض سے یا مد کو کھینچنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اذان کے کلمات کو مدِصوت اور اسی طرح تحسینِ صوت کی غرض سے کھینچنا جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ،کیوں کہ اذان کا مقصد اعلام یعنی لوگوں کو اطلاع دیناہے اور یہ مقصد کلمات کے کھینچنے سے اچھی طرح ادا ہوجاتا ہے،البتہ کلماتِ اذان کو ترنم کے ساتھ پڑھنا اور اس طرح کھینچناکہ کلمات اپنی ہیئت اور عربیت سے نکل جائیں، جائز نہیں اور اسی طرح اذان میں  مد کو کھینچنا بھی جائز ہے،البتہ اذان میں اسمِ جلالہ میں مدّ تعظیم کو راجح قول کے مطابق پانچ الف تک کھینچ سکتے ہیں،جب کہ ایک قول کے مطابق  سات الف تک بھی کھینچ سکتے ہیں۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: ويترسل فيه ويحدر فيها) أي يتمهل في الأذان ويسرع في الإقامة وحده أن يفصل بين كلمتي الأذان بسكتة بخلاف الإقامة للتوارث ولحديث الترمذي أنه - صلى الله عليه وسلم - قال لبلال «إذا أذنت فترسل في أذانك وإذا أقمت فاحدر» فكان سنة فيكره تركه ولأن المقصود من الأذان الإعلام والترسل بحاله أليق ومن الإقامة الشروع في الصلاة والحدر بحاله أليق وفسر الترسل في الفوائد بإطالة كلمات الأذان والحدر قصرها وإيجازها."

(كتاب الصلاة،باب الأذان،271/1،ط:دار الكتاب الإسلامي)

وفيه أيضا:

"(قوله: ولحن) أي ليس فيه لحن أي تلحين وهو كما في المغرب التطريب والترنم يقال لحن في قراءته تلحينا طرب فيها وترنم، وأما اللحن فهو الفطنة والفهم لما لا يفطن له غيره ومنه الحديث «لعل بعضكم ألحن بحجته من بعض» وفي الصحاح اللحن الخطأ في الإعراب والتلحين التخطئة والمناسب هنا المعنى الأول والثالث ولهذا فسره ابن الملك بالتغني بحيث يؤدي إلى تغيير كلماته، وقد صرحوا بأنه لا يحل فيه وتحسين الصوت لا بأس به من غير تغن، كذا في الخلاصة وظاهره أن تركه أولى لكن في فتح القدير وتحسين الصوت مطلوب ولا تلازم بينهما وقيده الحلواني بما هو ذكر فلا بأس بإدخال المد في الحيعلتين فظهر من هذا أن التلحين هو إخراج الحرف عما يجوز له في الأداء من نقص من الحروف أو من كيفياتها وهي الحركات والسكنات أو زيادة شيء فيها."

(كتاب الصلاة،باب الأذان،270/1،ط:دار الكتاب الإسلامي)

 الاتقان فی علوم القرآن  میں ہے :

"وأمّا السبب المعنوي فھو قصد المبالغة في النفي ، وھو سبب قوي مقصود عند العرب وھذا مذھب معروف عند العرب ؛ لأنّھا تمد عند الدعاء و عند الاستغاثة وعند المبالغة في نفي شيءٍ."

(الاتقان في علوم القرآن ، النوع الثاني والثلاثون ، في المد والقصر ، 97/1، ط: مصطفی البابی مصر)

  النشرفی القراء ات العشر  میں ہے :

"والمرتبة الخامسة فوقھا ( أي فوق الرابعة ) قلیلاً، وقدرت بخمس ألفات."

( النشر في القراء ات العشر ، باب المد والقصر ، 325/1 ،ط: دار الکتب العلمیة )

وفي شرح طيبة النشر في القراءات العشرللنويري:

"المرتبة الخامسة: فوقها قليلا، وقدرت بأربع، وبخمس ، وبأربع ونصف..وينبغى أن تكون هذه المرتبة  فى المتصل للجماعة كلهم عند من لم يجعل فيه تفاوتا، وإلا فيلزمهم تفصيل المنفصل؛ إذ لا مرتبة فوق هذه لغير أصحاب السكت فى المشهور، ولا قائل به، وكذا يكون لهم أجمعين فى المد اللازم لما ذكر؛ إذ سببه أقوى بالإجماع.

واعلم أن هذا  الاختلاف فى تقدير المراتب بالألفات لا تحقيق وراءه؛ لأن مرتبة القصر  إذا زيد عليها أدنى زيادة صارت ثانية، ثم كذلك إلى القصوى، وهذه الزيادة إن قدرت بألف أو بنصف ألف هى واحدة، فالمقدر غير محقق، والمحقق إنما هو مجرد [هذه] الزيادة، وهذا مما تحكمه المشافهة، ويكشفه الحس .ولا يخفى «ما ذكر»  من الاضطراب الشديد فى تفاوت المراتب، وأنه ما من مرتبة ذكرت لشخص من القراء إلا وذكر له ما يليها، وكل ذلك يدل على شدة قرب كل مرتبة مما يليها، وأن مثل هذا التفاوت لا يكاد ينضبط، والمنضبط من ذلك غالبا هو القصر المحض، والمد المشبع من غير إفراط عرفا، والتوسط بين ذلك، ويستوى فى معرفة  ذلك أكثر الناس، وتحكم المشافهة حقيقته ، وهو الذى استقر عليه العمل كما تقدم."

(باب المد والقصر،384/1،ط:دار الكتب العلمية)

کمال الفرقان شرح  جمال القران میں ہے:

"رہی یہ بات کہ غیر قران مثلاً اذان ودعاء وغیرہما میں اسم الجلالہ کا مدِ تعظیم شان ایک الف پر کس قدر زائد ہے اور اس مدِ معنوی کی مقدار وحد کیا ہے؟ سو یہ مسئلہ چوں کہ غیر متعلق بالفن ہے ،اس بناء پر تجوید وقراءت کی کتب کی نصوص اس سے ساکت ہیں ،محض مسائل واصولِ قراءت کے قیاس سے راجح قول پر اس کی مقدار پانچ الفی مفہوم ومستنبط ہوتی ہے ،کیوں کہ مجموعۂ اختلافِ قراآتِ قراء عشرہ پر نظر ڈالنے سے ان کے مشہور ومتداول طرق کی روشنی میں مد کی آخری سے آخری حد پانچویں مرتبہ ودرجہ کا مد ہے ،جس کا اندازہ پانچ الف کے بقدر کشش ودرازی سے کیا گیا ہےکما فی النشر(325/1) :المرتبة الخامسة فوقها ( أي فوق الرابعة ) قليلا وقدرت بخمس ألفات.صرف بعض حضرات سات الف تک اجازت کے قائل ہیں جس کی تخریج وتوجیہ غالباً یہ ہے کہ بعض غیر معروف وغیر متداول طرق سے قبل الہمز حروف مدہ پر سکتہ کرنے والے قراء کے یہاں سکتہ کا عرصہ مد کے ساتھ ملا کر مجموعی طور پر دونوں کی مقدار مرتبۂ خامسہ سے بھی زائد ومتجاوز ہو کر تقریباً چھ یا سات الفی بن جاتی ہے ،جس کو مقدارِ مد کا چھٹا مرتبہ کہنا چاہیے اور یہ مرتبہ اصحابِ سکتہ ہی کے لیے مخصوص ہے ،لیکن یہ قول چنداں قوی اور مستند نہیں اور بعض کتب ورسائلِ تجوید میں جو فقہاء کی جانب انتساب کرکے لفظِ جلالہ کی مقدارِ مد اذان میں سات الفی تک بتائی ہے یہ چیز تا حال معرضِ خفاء ومحلِ نظر میں ہےفلعل الله يحدث بعد ذلك أمرا."

(مضمون دوم:شد الدلالہ فی مد الجلالہ،269،ط:ادارہ کتب طاہریہ،ملتان)

مفتاح الکمال شرح تحفۃ الاطفال میں ہے:

"مد کے سبب کی دو قسمیں ہیں ،ایک لفظی جو تلفظ میں پایا جائے اور وہ ہمزہ اور سکون ہے اور دوسرا معنوی جو لفظ میں نہیں ہوتا او رمعنی ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور معنوی بھی دو ہیں ،ایک نفی میں مبالغہ یعنی نفی کو خوب او رپوری طرح ظاہر کردینا اور اسی لیے طیبہ کے طریق سے امام حمزہ نفی جنس کے لَا میں توسط کرتے ہیں جیسے لا ريب اور فلا مرد ّله وغیرہ اور دوسرا تعظیم یعنی شان کی بڑائی ظاہر کرنا اور یہ لفظِ اللہ میں ہوتا ہے ،اس میں فقہاء نے سات الف کے برابر مد کرنا بھی درست بتایا ہے۔"

(مدِ فرعی کی تعریف اور مد کے سبب کا بیان ،ص:66،ط:میر محمد کتب خانہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"لفظ "اللہ اکبر" کے "لام" پر مدِّتعظیمی کرنے کو بعض قراء نے درست لکھا ہے اور اذان میں مدِّ صوت مقصود بھی ہے تاکہ دور تک آواز پہونچے،فقہاء نے بھی اطالتِ کلمات کی تصریح کی ہے،مگر موسیقی کے طور پر اتار چڑھاؤ کرنا غلط ہے،اس سے پرہیز کیا جائے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم"

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،کلماتِ اذان کا بیان،414/5،ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں