بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کلائی میں دھاگہ یا کڑا باندھنے کا حکم


سوال

آج کل ہمارے نوجوانوں میں ایک چیز بہت عام ہو رہی ہے ،کہ جسے دیکھو اس کی کلائی پر مختلف رنگ کے دھاگے یا ڈوریاں بندھی ہوتی ہیں، ان ڈوریوں کا رنگ سیاہ، سبز یا سرخ ہوتا ہے، یا پھر دھاتی کڑے پہنے ہوتے ہیں، اگر کسی سے بات کی جائے کہ یہ مناسب نہیں تو جواب ملتا ہے کہ فلاں پیر نے دم کر کے دیئے ہیں، راہ نمائی فرما دیں کہ اس قسم کے دھاگےیا دھاتی کڑے کلائی پر یا جسم کے کسی اور حصے پر باندھنے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

  ہاتھ میں دھاگہ   باندھنا یاکڑا پہننا  اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو  اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگہ یا کڑا کا باندھنا درست نہیں ،اس لیے کہ  نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو ''رتیمہ'' کہا جاتا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ ممنوع ہے، اور بعض فقہاء نے تو اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے، اسی طرح ہاتھوں میں کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے، اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے،اور اگر یہ عمل فیشن اور آرائش کے طور پر ہو تب بھی درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: ‌وهي ‌خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ج:6، ص:363، ط: سعید)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ‌ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم.»."

(کتاب اللباس ، باب فی لبس الشہرة، ج:4، ص:78، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال:لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال."

(كتاب اللباس، باب المتشبہون بالنساء، و المتشبہات بالرجال،ج:5، ص: 207 ط: دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں