بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا یہ بات صحیح ہے کہ خانہ کعبہ کا رنگ کالا ہے اس لیے کالا پاجامہ اور کالا جوتا نہیں پہننا چاہیے اس سے بے ادبی ہوتی ہے؟


سوال

اکثر کہا جاتا ہے کے کالے رنگ کے پاجامے اور چپل نہیں پہننی چاہیے،  کیوں کے خانہ کعبہ کا غلاف کالے رنگ کا ہوتا ہے،  اس لیے بے ادبی ہوتی ہے ،  کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فی نفسہ کالے رنگ کا لباس اور جوتا پہننا صحیح ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سیاہ (کالے) رنگ کی چادر اور کالے رنگ کا موزہ پہننا ثابت ہے، اس لیے کالے رنگ کا لباس اور جوتا پہنا جا سکتا ہے، تاہم بعض بزرگوں کے بارے میں ہے کہ بیت اللہ شریف کے غلاف کے سیاہ ہونے کی وجہ سے وہ تعظیماً   کالا جوتا استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن ان بزرگوں کا یہ عمل ان کے اندازِ عاشقانہ اور غلبہ محبت کی بناء پر تھا، لہذا ان کا اپنے طور پر احتیاط کرنے کی بناء پر کالے رنگ کو ممنوع نہیں قرار دیا جا سکتا، اس لیے کالے رنگ کا لباس اور جوتا پہننا شرعاً جائز ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ابن بريدة، عن أبيه، «أن النجاشي أهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم خفين أسودين ساذجين فلبسهما ثم توضأ ومسح عليهما» هذا حديث حسن."

(أبواب الأدب، ‌‌باب ما جاء في الخف الأسود، ج: 5، ص: 124، رقم: 2820، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

بذل المجہود میں ہے:

"(أهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خفين أسودين ساذجين) قال الشارح: كأنه أراد أنه لم يخالط سوادهما لون آخر."

(كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين، ج: 1، ص: 659، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وروي أنه «عليه الصلاة والسلام أمسك خفا أسود أهدي له ‌خفان ‌أسودان فقبض ولبس» ، كذا في القنية والله أعلم."

(كتاب الكراهية، الباب العاشر في استعمال الذهب والفضة، ج: 5، ص: 334، ط: دار الفكر)

بذل المجہود میں ہے:

"(حدثنا محمد بن كثير، أنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة قالت: صبغت للنبي صلى الله عليه وسلم ‌بردة ‌سوداء فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها) أي: طرحها عنه، لأنه كان يكره أن توجد منه الرائحة الكريهة (قال) الراوي: (وأحسبه قال: وكان يعجبه الريح الطيب) وفي الحديث جواز لبس السواد، وهو متفق عليه."

(أول كتاب اللباس، باب: في السواد، ج: 12، ص: 101، رقم: 4074، ط: مركز الشيخ للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة."

(كتاب الإكراه، باب تعدي العامل، ج: 24، ص: 77، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں