مرنے کے بعد کلالہ آدمی کا مال کیسے تقسیم کیا جاتا ہے؟
کلالہ یعنی وہ مرد یا عورت کہ جس کے ورثاء میں اصول و فروع یعنی باپ ،دادا ، اولاد یا اولاد کی اولاد وغیرہ موجود نہ ہوں تو اس کی میراث اس کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین،اداۓ دُیون اور اِنفاذ وصیت کے بعد اس کےبھائی بہنوں میں تقسیم ہوگی،اب چاہے حقیقی بھائی بہن ہوں یا باپ شریک،چناں چہ اگرایک بہن ہو تو آدھا،دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی اور اگر بھائی اور بہن دونوں ہوں تو بھائی کو دہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا اور اگر صرف بھائی ہوں ،بہن کوئی نہ ہو تو وہ اپنی بہن کے تمام مال کے وارث ہوں گے۔
مذکورہ حکم حقیقی اور علاتی(یعنی باپ شریک) بھائی بہنوں کا ہے اور اگر اخیافی (یعنی ماں شریک) بھائی بہن ہوں اور صرف ایک بھائی ہو یا صرف ایک بہن ہو تو ہر ایک کو میت کے تمام مال کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر مذکورہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو انہیں کل ترکہ کا تہائی حصہ ملے گا جو ان میں برابر تقسیم ہوگا۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَها نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِنْ لَمْ يَكُنْ لَها وَلَدٌ فَإِنْ كانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كانُوا إِخْوَةً رِجالاً وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ." (النساء:176)
وفیہ ایضاً:
"وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ واحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذلِكَ فَهُمْ شُرَكاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصى بِها أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12)."
تفسیر ابنِ کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ أي من أم كما هو في قراءة بعض السلف، منهم سعد بن أبی وقاص، وكذا فسرها أبو بكر الصدیق فیما رواه قتادة عنه ."
(سورة النساء،201/2،ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144411102451
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن