ہم ایک جگہ درس قرآن میں شرکت کرتے تھے ، اتوار اتوار وہاں درس ہوتا تھا ، وہاں ان آیات کے درس میں یہ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے، اور ان کا جواب اور حل معلوم کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن نہ ان سے معلوم ہوا، نہ اپنی کوشش سے ۔لہذا آپ کی خدمت میں التماس ہے۔
اگر مرد انتقال کر جائے اور اس کی وارث ایک ہی بہن ہو تو اس کو جائیداد کا نصف ملےگااور اگر بہن مر جائے تو اس کے بھائی کو پوری جائیداد ملے گی اور اگر بھائی مر جائے اور اس کی وارث دو بہنیں ہوں تو بھائی کی جائیداد یا وراثت سے ان دونوں کو دو تہائی 2/3 ملے گا اور اگر بھائی مر جائے اور کئی بہن اور بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔
سوال نمبر1۔ بھائی کے مرنے پر ایک بہن کونصف جائیدا دمل رہی ہے تو باقی نصف کہاں جائے گی؟ یعنی 100 روپے میں سے50 مل رہے ہیں تو باقی (50) کہاں جائیں گے؟ ایک کروڑ ہوں تو 50 لاکھ کہاں جائیں گے؟
سوال نمبر 2۔ بھائی کے مرنے پر اگر وارث دو بہنیں ہوں تو دونوں کو دو تہائی ملےگا ، یعنی 100 میں سے 66.66، باقی ایک تہائی 33.33 کہاں جائے گا؟ ایک کروڑ کی صورت میں 33 لاکھ 33 ہزار کہاں جائیں گے؟
سوال نمبر3۔کلالہ مرد کے انتقال کی صورت میں اگر ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں یا دو بہنیں ہوں تو 176 آیت کے تحت وہ سب 2/3 دو تہائی کے حصہ دار ہوں گے جب کہ النساء کی 12 آیت کے تحت وہ سب 1/3 ایک تہائی میں شریک ہوں گے، یہ تضاد ہو گیا تو کون سا حکم مانا جائے گا اور کیوں؟
سوال نمبر4 ۔وراثت کی تقسیم النساء آیت 11 اور 12 کے مطابق:
ایک مرد مر گیا اس کے ماں باپ دونوں حیات ہیں اور ایک بیوی اور دو بیٹیاں ہیں تو النساء کی 11 اور 12 کے تحت وراثت اس طرح تقسیم ہوگی ( کوئی وصیت نہیں اور نہ کوئی قرض ہے):
دو بیٹیوں کو دو تہائی 2/3 (%66.66)
ماں اور باپ کو 1/6+1/6 دونوں کو کل (16.66+16.66) %33.34
بیوی کا حصہ1/8. %12.50
اگر 100 روپے ہوں تو تقسیم ٹوٹل %112.50 روپے ہو گئے۔
یعنی 12.50 روپے زیادہ اگر جائیداد ایک کروڑ ہوتو (12.50) ساڑھے بارہ لاکھ اضافی رقم کہاں سے آئے گی؟یعنی قرآن کے بیان کردہ حصوں کے مطابق جائیداد کم پڑ جاتی ہے ، اور حصے بڑھ جاتے ہیں ۔
جواب سے پہلے چند اصطلاحات کو ذہن نشیں کرنا زیادہ فائدہ مند ہے:
1)ذوی الفروض: وہ ورثاء ہیں کہ جن کے حصے شریعت میں متعین ہیں اور ترکہ میں سے سب سے پہلے انہی ورثاء کو حصہ ملتا ہے۔
2)عصبہ:میت کے وہ رشتہ دار جو ذوی الفروض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں اور ذوی الفروض نہ ہوں تو سارا ترکہ لےلیتے ہیں۔
3)مخرج : اس سے مراد وہ عدد ہے جس سے میت کے ورثاء کے حصے نکلتے ہیں ۔
4)حصہ:وہ مقررہ حق یا مقدار ہے جو کسی وارث کو میت (مرنے والے شخص) کی جائیداد سے شرعی اصولوں کے مطابق ملتا ہے۔
5)عول: مخرج سے حصوں کے بڑھ جانے کی صورت میں مخرج کے اجزاء میں اضافہ کرنے کو عول کہتے ہیں۔
6) رد: ذوی الفروض کو حصے دینےکے بعد اگر کچھ بچ جائےاور کوئی عصبہ نہ ہو تو دوبارہ نسبی اصحابِ فروض کو ان کے حصوں کے مطابق دینا۔
1)صورتِ مسئولہ میں اگر ورثاء میں صرف ایک بہن ہو اور اس کے علاوہ ذوی الفروض یا عصبات میں سےکوئی موجود ہو تو اس صورت میں بہن کو نصف یعنی پچاس فیصد حصہ ملےگا اور باقی ترکہ دیگر ورثاء کو ملےگا، اور اگر میت کی ایک بہن کے علاوہ اصحابِ فروض اور عصبات میں سے کوئی موجود نہ ہو تو اس صورت میں باقی پچاس فیصد اس پر رد ہوگا،کل ترکہ اس کو ملے گا۔(1)
2) اگر میت کےورثاء میں صرف دو یا اس سے زائدبہنیں ہوں اور اس کے علاوہ ذوی الفروض اور عصبات میں سےکوئی موجود ہو تو اس صورت میں بہنوں کو دو تہائی یعنی66/66 فیصد حصہ ملےگا اور باقی ترکہ دیگر ورثاء کو ملےگا، اور اگر میت کی دو یا اس سے زیادہ بہنوں کے علاوہ اصحابِ فروض اور عصبات میں سے کوئی موجود نہ ہو تو اس صورت میں باقی33/33 فیصد ان پر رد ہوگا،یعنی کل ترکہ ان کو ملے گا۔(1)
3) مذکورہ دونوں آیتوں کا مصداق الگ الگ ہے، سورۃ النساء آیت نمبر 12 کا تعلق اس مسئلہ سےہے کہ اگر کلالہ میت کے ورثاء میں ایک ماں شریک بہن یا ایک ماں شریک بھائی ہوتو اسے چھٹاحصہ ملےگا اور اگر ایک سے زائد ماں شریک بھائی بہنیں ہوں تو ان سب کو ایک تہائی ملےگا۔
اور سورۃ النساء آیت نمبر 176 کا تعلق اس مسئلہ سے ہے کہ کلالہ کے ورثا ء میں ایک سگی بہن ہو تواسے آدھا ملتا ہے، دو سگی بہنیں ہوں تو انہیں دو تہائی ملتا ہےاور بھائی بہنیں دونوں سگے ہوں تو حقیقی / سگے یا باپ شریک بہن بھائی ہوں تو ان کو للذکر مثل حظ الانثیین کے قاعدے کے مطابق دہرا اور اکُہرا ملےگا۔(2)
4)مذکورہ مسئلہ عول کا ہے،عول یہ ہے کہ اگرحصےمخرج سے بڑھ جائیں تو اس صورت میں مجموع سہام سے مسئلہ بنایا جاتاہے تا کہ ہر ایک وارث کے حصے میں اس کے حصے کے تناسب سے کمی منتقل ہوجائے۔(3)
مذکورہ مسئلہ کی درست تقسیم یوں ہوگی کہ ترکہ کو 27حصوں میں تقسیم کر کے ،3حصے بیوہ کو، 4حصےوالدہ کو، آٹھ ، آٹھ حصے ہر ایک بیٹی اور 4 حصے والد کو بطور عصبہ ملیں گے۔
مرحوم:27/24
بیوہ | والد | والدہ | بیٹی | بیٹی |
3 | 4 | 4 | 8 | 8 |
فیصد کے حساب سے 12.5 فیصد بیوہ کو،16.666فیصد والدہ کو ، 66.666 فیصد دو بیٹیوں کو ملیں گے اور بقیہ فیصد والد کو ملے گا۔
(1)صحیح بخاری میں ہے :
" قال: أخبرني عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال: مرضت بمكة مرضا، فأشفيت منه على الموت، فأتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا، وليس يرثني إلا ابنتي."
(کتاب الفرئض، باب ميراث البنات، ج: 8، ص: 150، رقم الحدیث : 6733، ط: دار طوق النجاة)
مذکورہ حدیث سے متعلق حاشیۃ السراجی دلیل الوراث میں ہے:
"لم ینکر علیه رسول اللہ ﷺ حصر المیراث علی الابنة، و لولا الحکم كذلك لأ نکر علیه و لم یقرہ علی الخطاء، لا سیما فی موضع الحاجة الی البیان."
(باب الرد، ص: 95، ط: البشری)
(2) سورۃ النساء میں ہے:
"وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ "(آیت"12")
ترجمہ:اور تم کو آدھا ملےگا اس ترکہ کا جو تمھاری بیبیاں چھوڑ جاویں اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو اور اگر ان بی بیوں کے کچھ اولاد ہو تو تم کو ان کے تر کہ سے چوتھائی ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا دین کے بعد اور ان بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤ ۔ اگر تمہارے کچھ اولاد نہ ہو ۔ اور اگر تمھارے کچھ اولاد ہو تو ان کو تمھارے تر کہ سے آٹھواں حصہ ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کر جاؤ یا دین کے بعد ۔ اور اگر کوئی میت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی خوا وہ (میت) مرد ہو یا عورت ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع ہو اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملیگا پھر اگر یہ لوگ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی میں شریک ہونگے وصیت نکالنے کے بعد جس کی وصیت کی جاوے یا دین کے بعد بشرطیکہ کسی کو ضرر نہ پہنچاوے یہ حکم کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے اور الله تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں حلیم ہیں.( از بیان القرآن)
تفسیر مظہری میں ہے:
"وإن كان رجل او امراة يورث أحدهما من الميت كلالة وهو يعني الوارث للميّت أَخٌ أَوْ أُخْتٌ أجمعوا على ان المراد بالأخ والأخت هاهنا الأخ والأخت لأم فقط يدل عليه قراءة أبيّ وسعد بن أبى وقاص روى البيهقي أن سعدا قال الراوي أظنه ابن أبى وقاص كان يقرأ وله أخ او أخت من أمّ."
ترجمہ:اگر مرد یا عورت میت کی طرف سے کلالہ کے طور پر وراثت میں ملے یعنی مرنے والے کا وارث بھائی یا بہن ہو تو وہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں بھائی بہن سے مراد صرف ماں کی طرف سے بہن بھائی ہیں جیسا کہ ابی اور سعد بن ابی وقاص کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ ابی وقاص پڑھتے تھے" اور والدہ کے پہلو میں ان کا ایک بھائی یا بہن تھا"۔
(سورۃ النساء، رقم الآیة: 12، ج: 2، ص: 34، ط: الرشيدیة)
سورۃ النساء میں ہے:
"يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (" آیت "176")
ترجمہ:لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ الله تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مرجاوے جس کے اولاد نہ ہو ( اور نہ ماں باپ) اور اس کے ایک (عینی یا علاتی) بہن ہو تو اس کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ شخص اس (اپنی بہن) کا وارث ہوگا اگر (وہ بہن مرجاوے اور ) اس کے اولاد نہ ہو ( اور والدین بھی نہ ہوں) اور اگر بہنیں دوہوں (یازیادہ) تو ان کو اس کے کل ترکہ میں سے دوتہائی ملیں گے ۔ اور اگر وارث چند بھائی بہن ہوں مرد اور عورت تو ایک مرد کو دوعورتوں کے حصہ کے برابر الله تعالیٰ تم سے (دین کی باتین) اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تم گمراہی میں نہ پڑو ۔ اور الله تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں ۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"فائدة: - أجمع العلماء على أن هذه الاية فى بيان ميراث الإخوة والأخوات لأب وأم كما ذكرنا فى أوّل السورة عن أبى بكر الصديق رضى الله عنه وقيس عليهم بالإجماع الإخوة والأخوات لأب عند فقد بني الأعيان."
ترجمہ: فائدہ:- علماء کا اتفاق ہے کہ یہ آیت والد اور والدہ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت کی وضاحت کرتی ہے جیسا کہ ہم نے سورہ کے شروع میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ اور باپ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کا بھی اسی طرح متفقہ طور پر قابل ذکر بچوں کی عدم موجودگی میں ان سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
(سورۃ النساء، رقم الآیة: 176، ج: 2، ص: 284، ط: الرشدیة)
(3)احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"روى الزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس قال أول من أعال الفرائض عمر بن الخطاب لما التوت عليه الفرائض ودافع بعضها بعضا قال والله ما أدري أيكم قدم الله ولا أيكم أخر وكان امرأ ورعا فقال ما أجد شيئا هو أوسع لي أن أقسم المال عليكم بالحصص وأدخل على كل ذي حق ما أدخل عليه من عول الفريضة
وروى أبو إسحاق عن الحارث عن علي في بنتين وأبوين وامرأة قال صار ثمنها تسعا."
(سورۃ النساء، باب العول، ج: 3، ص: 22، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101860
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن