بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلالہ کا اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے کو زمین گفٹ کرنا


سوال

ایک پھوپھی کلالہ وغیر شادی شدہ ہے،  اس کے بھائی،  بہن  اوروالدین  پہلے فوت ہو گئے ہیں،  اس کا صرف ایک بھتیجا ہے، پھوپھی کی  40 ایکڑ زمین ہے،  اب بھتیجے کو کیا ملے گا اور کیا پھوپھی کے چچا  اور اس کی اولاد کو کچھ ملے گا؟ پھوپھی اپنی زندگی میں میرے نام زمین لگانا چاہتی    ہے۔

جواب

صورت ِ  مسئولہ میں اگر  سائل کی پھوپھی ابھی حیات ہیں (جیسا کہ  سوال سے ظاہر ہورہا ہے) تو وہ اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد بشمول مذکورہ  ملکیتی زمین کی تن ِ تنہا مالک ہیں، اس میں ہر جائز تصرف کرسکتی ہیں،ان کی زندگی میں ان کی جائیداد میں کسی کا حق وحصہ نہیں ہے اور نہ  ہی  کسی کو  ان سے مطالبہ کا حق  ہے۔

البتہ اگر  واقعۃً ان کے والدین ، بھائی اور بہن   کا انتقال ہوگیا ہے ، اور اب صرف ان کا  ایک ہی بھتیجا  (سائل) ہے ، اور وہ اپنی رضا وخوشی سے اس کو زمین گفٹ کرنا چاہتی ہیں تو کرسکتی ہیں، تاہم پھوپھی کے لیے اپنی جائیداد  کو تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  پھوپھی  اپنی جائیداد  میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے ؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور اگر چاہے تو کل مال کے ایک تہائی حصہ کے بقدر اپنے چچا اور اس کی اولاد کو دے دے،  اس کے بعد باقی ماندہ مال اپنے مذکورہ بھتیجے کو دےدے،اور گفٹ   کے مکمل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  وہ مکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ زمین  دے دیں ، اور گفٹ کرتے وقت اس سے اپنا تصرف بالکل ختم کردیں۔  نیز اگر پھوپھی زندگی میں اپنی جائیداد گفٹ نہ کرے تو  پھوپھی کے انتقال کی صورت میں اگر بھتیجا زندہ رہے گا تو پھوپھی کا اکیلا وارث اس کا مذکورہ بھتیجا ہوگا۔

شرح المجلہ میں ہے:

 "کل یتصرف في ملکه کیف شاء".

(4/ 132، مادہ: 1192،  الفصل الاول فی بیان بعض قواعد  فی احکام الاملاک، ط: رشیدیة)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(4 /378، كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ط: رشیدیة)

وفیہ أیضاً:

" وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط."

 (6 / 451، كتاب الفرائض،الباب الثالث في العصبات، ط: رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406102189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں